فیض آباد پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کی جانب سے اسپیشل برانچ کے حکام کو یرغمال بنانے کے بعد ان کے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوگیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔

حکام کو بازیاب کرانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے گئے جبکہ مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر ڈنڈے اور پتھروں کی بارش شروع کردی۔

پولیس ذرائع کے مطابق اسپیشل برانچ کے حکام کو اسلام آباد ایکسپریس وے کے قریب سوہان کے مقام پر مظاہرین اور ان کے رہنماؤں پر نظر رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کی زاہد حامد کو چھٹیوں پر بھیجنے کی پیشکش مظاہرین نے مسترد کردی

تاہم کچھ مظاہرین نے ان تین اہلکاروں کو مشکوک حرکات کرنے کی بنیاد پر پہچان لیا اور انہیں گھیر کر یرغمال بنالیا۔

پولیس نے ساتھی اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے کی اطلاع ملتے ہی مظاہرین سے اپنے تینوں ساتھیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ بعد ازاں پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے پر مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا۔

تصادم کی وجہ سے 6 ایف سی اور 10 پولیس اہلکار سمیت درجنوں سے زائد مظاہرین بھی زخمی ہوئے، پولیس کا کہنا تھا کہ کسی بھی زخمی کی حالت تشویشناک نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: احسن اقبال کی ایک مرتبہ پھر فیض آباد دھرنا ختم کرنے کی اپیل

تاہم تینوں اسپیشل برانچ کے اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیا جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

بعد ازاں ڈنڈے اور پتھروں سے لیس مظاہرین نے سوہان کے قریب پولیس پر حملہ کردیا جس کی مزاحمت میں پولیس کی نفری نے حملہ آوروں پر دھاوا بولا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ تصادم کے دوران مظاہرین نے کورل تھانے کے ایس ایچ او کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے 9 پولیس افسران، جن میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، دو انسپیکٹرز، چار پولیس اور دو ایف سی اہلکار بھی زخمی ہوگئے جبکہ کئی حملہ آور بھی واقعے میں زخمی ہوئے۔

تصادم کے نتیجے میں درجنوں سے زائد مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔

یہ بھی دیکھیں: 'اسلام آباد دھرنا حکومت کے خلاف سازش'

علاوہ ازیں صنعتی علاقے کی پولیس نے بھی ایف سی حکام کے سیکٹر آئی-8 سے واپسی پر مظاہرین کی جانب سے اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے پر مقدمہ درج کرلیا۔

مقامی افراد کی مشکلات

مذہبی جماعتوں کی جانب سے فیض آباد کے علاقے میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری دھرنے کی وجہ سے مقامی افراد کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

اسلام آباد ایکسپریس وے کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹی میں مقیم محمد نعیم کا کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ اس ہفتے یہ معاملہ حل ہوجائے گا، میں پچھلے دو ہفتوں سے اسلام آباد جانے کے لیے متبادل راستے اختیار کر رہا ہوں اور میرے بچے کئی دنوں سے اسکول نہیں جاسکے ہیں کیونکہ میں انہیں مقررہ وقت پر اسکول چھوڑ یا اسکول سے لا نہیں سکتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس دھرنے سے نہ صرف مجھ پر معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے بلکہ میرے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہورہی ہے'۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کی مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کی ہدایت

اسلام آباد کے سیکٹر آئی-10 کے رہائشی نے ڈان کو بتایا کہ 'حکومت رہائشیوں کو سہولیات دینے کی ذمہ دار ہے اور اگر حکومت مظاہرین کو ہٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو انہیں مظاہرین کے مطالبے مانتے ہوئے زاہد حامد کو استعفیٰ دینے کا حکم جاری کردینا چاہیے'۔

ایک اور رہائشی محمد بلال کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو مسئلے حل نکالنا چاہیے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کیلئے عدالت کی 23 نومبر تک کی مہلت

ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو آپریشن کر کے ہٹایا جائے یا پھر ان کے مطالبات پورے کریں کیونکہ جڑواں شہروں کے رہائشی اس صورت حال سے بیزار ہوچکے ہیں'۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ احسن اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ 'مظاہرین کے خلاف آپریشن حکومت کا آخری آپشن ہوگا'۔


یہ خبر 20 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں