’اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے‘ کے خالق کی برسی

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2017
فیض 20 نومبر 1984 کو مداحوں سے بچھڑے—فائل فوٹو: وائیٹ اسٹار
فیض 20 نومبر 1984 کو مداحوں سے بچھڑے—فائل فوٹو: وائیٹ اسٹار

’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے، اب بھی دلکش ہے ترا حسن، مگر کیا کیجیے! جیسی سطروں کے خالق فیض احمد فیض کو یوں تو اپنے مداحوں سے بچھڑے 33 برس بیت چکے ہیں، مگر وہ آج بھی اپنے شعروں، غزلوں اور نظموں کی صورت میں اپنے مداحوں کے ساتھ ہیں۔

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے 13 فروری 1911 کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، والدین نے نام فیض احمد خان رکھا مگر مشہور فیٖض احمد فیض ہوئے،ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول سیالکوٹ اور گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ سے حاصل کی, بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے رہے۔

28 اکتوبر سن 1941 کو برطانوی نژاد ایلس کیتھرین جارج سے شادی کی جن سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، فیض صاحب کے 8 شعری مجموعے شائع ہوئے جن کے نام بالترتیب "نقشِ فریادی"، "دستِ صبا"، "زنداں نامہ"، "دستِ تہہِ سنگ" "سرِ وادیءِ سینا"، "شامِ شہرِ یاراں"، اور "مرے دل مرے مسافر" ہیں۔

فیض نے 1941 میں ایلس سے شادی کی—فائل فوٹو: ڈان
فیض نے 1941 میں ایلس سے شادی کی—فائل فوٹو: ڈان

یہ بھی پڑھیں: جو چلے تو جاں سے گزر گئے

فیض احمد فیض نے اپنے اشعار میں سماجی مسائل کو فکری انداز میں پیش کرکے انہیں لوگوں میں سماجی مسائل اجاگر کیے۔

فیض نے الفاظ کو محبت کے موتیوں میں پرو کر اپنی شاعری کے حسن کو مزید بڑھایا،محبوبہ کی یاد کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر ان خوبصورت تمثیلوں اور اچھُوتے تاثر کے ذریعے فیض نے اسے بالکل نیا اور اچھُوتا بنا دیا، انہیں نہ صرف رومانوی بلکہ انقلابی اور عوامی شاعر بھی مانا جاتا ہے۔

فیض احمد فیض کے فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے بھی دوستانہ تعلقات تھے—فائل فوٹو: ڈان
فیض احمد فیض کے فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے بھی دوستانہ تعلقات تھے—فائل فوٹو: ڈان

فیض احمد فیض کے کلام انگریزی، فارسی، روسی، بلوچی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ کیے جاچکے ہیں، جب کہ ان کے کلاموں کو دنیا کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرکے انہیں دنیا تک پہنچانے کا کام جاری ہے۔

مزید پڑھیں: 'بھئی یہ غزل تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے'
رومانوہ شاعر نے گلوکارہ اقبال بانو سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی نظم ’دشت تنہائی‘ تحفے میں دی—فائل فوٹو: ڈان
رومانوہ شاعر نے گلوکارہ اقبال بانو سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی نظم ’دشت تنہائی‘ تحفے میں دی—فائل فوٹو: ڈان

شہر آفاق شاعر فوج میں کرنل رہے، جہاں کسی نرم رویہ شخص کی گنجائش نہیں ہوتی، وہ کالج میں پروفیسر بھی رہے، ریڈیو کی ملازمت بھی کی اور صحافت جیسا جان جوکھم کا پیشہ بھی اپنایا، اور کافی عرصہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے، حکومتِ پاکستان نے ان پر ’تشدد کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش‘ کا الزام لگا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا۔

سماجی مسائل اور رومانس سے بھرپور شاعری کرنے والے یہ شہرہ آفاق و انقلابی شاعر 20 نومبر سن 1984 میں لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے، اگرچہ وہ جسمانی طور پر اپنے مداحوں کے ساتھ نہیں، لیکن ان کا کلام کئی صدیوں تک انہیں زندہ و جاوید رکھے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں