سربیا کے محافظ سمجھے جانے والے اور بوسنیا میں قتل عام کے مبینہ ملزم ریٹکو ملاڈچ، جنہوں نے اپنی فوج کے ذریعے ہزاروں افراد کا قتل کیا اور اس کے باعث خطے میں 'بوسنیا کے قصائی' کا لقب اپنے نام کیا، کو 22 نومبر کو مبینہ طور پر قتل عام میں عدالتی فیصلے کا سامنا ہوگا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق جنرل کے دفاع کے لیے دی ہیگ کی عدالت میں کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔

صحافی جولیان بورجر کی کتاب 'دی بُچرز ٹریل' (قصائی کی کہانی)، جو گزشتہ سال شائع ہوئی تھی، کے مطابق ریٹکو ملاڈچ کو ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی بوسنیا کی ریاست میں عوام کا قتل عام کرنے پر سزا سنائی جائے گی۔

خیال رہے کہ ریٹکو ملاڈچ پر قتل کے واقعے میں نسل کشی کے مقدمات درج کیے گئے تھے، جو یورپی سرزمین پر دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بدترین ظلم کی داستان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بوسنیا میں قتل عام، جنگ کے 21سال بعد بھی تدفین جاری

تاہم انہوں نے 2011 میں عدالت کے سامنے پیش کیے جانے پر خود پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں قابل اعتراض قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی عوام اور اپنے ملک کی حفاظت کی۔

بوسنیا کی سرب فوج کے بے رحم کمانڈر ریٹکو ملاڈچ نے 1990 کی خانہ جنگی میں بوسنیا کی سرزمین سے کروشیا اور مسلمانوں کے خاتمے اور صرف سربیا کے عوام کا ملک بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا تھا۔

یورپ کا انتہائی مطلوب ریٹکو ملاڈچ کو 16 سال تک فرار رہنے کے بعد 2011 میں حراست میں لیا گیا جبکہ 74 سالہ سابق فوجی آفیسر آج بھی سربیا کے کئی افراد میں ہیرو کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

تاہم وہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں میں 44 ماہ تک سراجیوو کا محاصرہ کرنے والا اور 1995 کے قتل عام میں 8 ہزار مسلمانوں کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔

ملاڈچ کی فوج میں آمد

شمالی بوسنیا میں پیدا ہونے والے ملاڈچ نے اپنی زندگی میں بچپن ہی سے خون خرابہ دیکھا تھا، ان کے والد دوسری عالمی جنگ میں کروشیا کے آمرانہ نظام کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

ملاڈچ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور جون 1991 میں یوگوسلاویا کی فوج میں کرنل کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔

انہیں کروشیا میں سربیا کی فوج کو منظم کرنے کے لیے بھیجا گیا اور اسی سال انہیں بوسنیا کی سرب افواج کا کمانڈر تعینات کردیا گیا جسے بوسنیا اور سربیا کی عوام کے لیے پورے بوسنیا کی سرزمین پر قبضہ حاصل کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بوسنیا میں قتل عام پر سرب رہنما کو 40 سال قید

1994 کی جنگ کے دور میں ملاڈچ کی اکلوتی بیٹی نے 23 سال کی عمر میں اپنے ہی والد کے پستول سے خود کشی کرلی تھی۔

سابق یوگوسلاویا کی فوج کے ترجمان کے مطابق ملاڈچ انتہائی خود غرض انسان تھا۔

جنرل کے قریب رہنے والے افراد کا کہنا تھا کہ سرا برینیکا کے قتل عام کے ایک سال بعد اور بیٹی کی موت کے بعد ملاڈچ نے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔

ملاڈچ کے خلاف جاری ٹرائل میں استغاثہ نے سراجیوو کے محاصرے کے دوران 10 ہزار افراد کے قتل اور گولیوں کے ڈر پر شہر کو غذا، پانی اور بجلی سے دور رکھنے کے جرم میں بھی نامزد کر رکھا ہے۔

ڈرپوک جنگ

صحافی ٹم جوداح نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملاڈچ نے ایک ڈرپوک جنگ لڑی تھی، اس نے صرف چند لڑائیاں لڑیں جن میں کئی ہزار نہتے افراد کو ان کے گھروں سے نکال کر مارا۔

مزید پڑھیں: سربین صدر نے مسلمانوں کے قتل عام پر معافی مانگ لی

جولیان بورجر کے مطابق ملاڈچ پر بین الاقوامی ٹریبونل برائے یوگوسلاویا نے 1995 میں فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا لیکن برطرفی کے بعد ہی انہوں نے سربیا کی فوجی ریزورٹس میں عالیشان زندگی گزاری۔

تاہم بعد ازاں وہ 2006 میں مطلوب ہونے کی بنا پر رو پوش ہوگئے تھے جو کو بعد ازاں 2011 میں ان کے رشتہ دار کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 20 نومبر 2017 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں