ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لڑکی کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے میں متاثرہ لڑکی کی والدہ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرادی۔

درخواست میں عدالت سے معاملے کے تفتیشی عمل کی نگرانی کی استدعا کی گئی ہے۔

متاثرہ لڑکی کی والدہ نے درخواست وکیل قاضی محمد انور کے ذریعے جمع کرائی، جس میں واقعے کی تمام تفصیلات اور پس منظر بھی بتایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ تقریباً دو سال قبل متاثرہ لڑکی کے بھائی پر مخالف قبیلے کی ایک لڑکی کو موبائل فون بطور تحفہ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

قبیلے نے یہ معاملہ دربان تحصیل کے ناظم مونی خان کی پنچائیت میں اٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان:لڑکی پر تشدد کے الزام میں مزید 2 افراد گرفتار

پنچائیت نے لڑکے اور اس کے خاندان پر 5 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جسے بعد ازاں کم کرکے 3 لاکھ کردیا گیا، جو خاندان نے ادا بھی کیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 27 اکتوبر کر متاثرہ لڑکی دیگر لڑکیوں کے ہمراہ قریبی تالاب سے پانی لینے گئیں، جہاں سے واپسی میں مخالف قبیلے کے کچھ افراد اسے زبردستی اپنے گھر لے گئے جہاں اس کے کپڑے پھاڑ کر لڑکی کو گلیوں میں برہنہ گھمایا گیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

متاثرہ لڑکی کی والدہ نے حکومت اور پولیس سے لڑکی اور اپنے خاندان کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کے درخواست کی۔

درخواست کے مطابق حکومت اور پولیس تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کراچکی ہے، جبکہ پولیس مقدمے میں نامزد ملزمان کے قبضے سے ویڈیو بھی حاصل کرچکی ہے۔

واضح رہے کہ واقعے کے ایک روز بعد ہی متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں تمام ملزمان کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ’لڑکی کو برہنہ کرکے گھمانے کا واقعہ ملک کیلئے دھبہ‘

تشدد کا شکار لڑکی کے بھائیوں نے مقامی پولیس پر کارروائی میں غفلت برتنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے انصاف کی اپیل کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ان کی بہن کو سجاول اور ان کے ساتھیوں نے پانی کے تالاب سے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ سہیلیوں کے ساتھ پانی لینے گئی تھیں، جس کے بعد وہ ایک گھر میں چھپ کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ملزمان نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر سے باہر نکالا اور غیر قانونی طور پر حراست میں بھی رکھا۔

تبصرے (0) بند ہیں