ہرارے: زمبابوے کی حکمراں جماعت زمبابوے افریقن نیشنل یونین-پیٹریاٹک فرنٹ (زیڈ اے ایف این یو-پی ایف) نے مستعفیٰ ہونے کی ڈیڈلائن کے گزرنے کے بعد صدر رابرٹ موگابے کے مواخذے کے آغاز کا فیصلہ کرلیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق زمبابوے کی حکمراں جماعت کے عہدیدار پال منگوانا نے کہا کہ پارٹی کا صدر رابرٹ موگابے کے مواخذے کا فیصلہ ’متفقہ‘ ہے اور پارٹی، منگل کو پارلیمنٹ میں اس عمل کے آغاز کے لیے رضامند ہے۔‘

تنہائی کا شکار رابرٹ موگابے نے منگل کے روز کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔

رابرٹ موگابے کو صدارت سے مستعفی ہونے کے لیے حکمراں جماعت نے پیر کی سہ پہر تک کی ڈیڈلائن دی تھی اور ایسا نہ ہونے پر ان کے مواخذے کا اعلان کیا تھا۔

پال منگوانا کا کہنا تھا کہ ’مواخذے کے عمل کو دو روز لگیں گے جس کے لیے حکمراں جماعت کو اپوزیشن جماعت ایم ڈی سی کی حمایت بھی حاصل ہے۔‘

پارٹی کی جانب سے رابرٹ موگابے کو پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے سے متعلق باضابطہ طور پر آگاہ کردیا گیا۔

دوسری جانب زمبابوے کی فوج کا کہنا ہے کہ رابرٹ موگابے نے معاملے کے فیصلہ کن حل اور ملک کے مستقبل کے روڈ میپ کے لیے کام کا آغاز کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے: ٹینکوں سمیت فوج کی دارالحکومت پر چڑھائی

سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں فوج کی جانب سے کہا گیا کہ وہ رابرٹ موگابے کی طرف سے پیشرفت کی حمایت کرتی ہے، جس میں ان کے اور حال ہی میں برطرف نائب صدر ایمرسن مَنگاوا کے درمیان رابطہ بھی شامل ہے۔

ایمرسن مَنگاوا کا رابرٹ موگابے کے بعد نئے ملک کے نئے صدر کے طور پر نام سامنے آرہا ہے اور ان کی جلد وطن واپسی بھی متوقع ہے۔

زمبابوے کی فوج کی جانب سے عوام سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔

صدر رابرٹ موگابے نے اتوار کو عوام سے اپنے خطاب میں ایک بار پھر عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ زمبابوے کے لیے گزشتہ ہفتہ بڑا تاریخی گزرا جب فوج نے، صدر رابرٹ موگابے کی جانب سے اپنی 52 سالہ اہلیہ گریس کے سیاسی حریف ایمرسن منانگیگوا کو نائب صدر کے عہدے سے ہٹانے پر اقتدار کو ہاتھ میں لیتے ہوئے موگابے کو نظر بند کردیا۔

زمبابوے کے عوام نے فوج کے اس اقدام پر سڑکوں پر نکل کر جشن منایا جو 1980 میں زمبابوے کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا اور عوام نے ہرارے اور دیگر بڑے شہروں میں نعرے لگاتے ہوئے مارچ کیا۔

احتجاجی مارچ میں مختلف عمروں سے تعلق رکھنے والے شہری موجود تھے جو موگابے کے اخراج پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

93 سالہ رابرٹ موگابے اس وقت دنیا کے معمر ترین سربراہ ریاست ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں