پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واوڈا نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کرنے میں ملوث وزیر قانون زاہد حامد اور وزیرمملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دھرنے کے مظاہرین کے مطالبے کو تسلیم کرے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا بھی اس حوالے سے یہی مؤقف ہے، لہذا گذشتہ 15 روز سے جاری دھرنے کو ختم کرنے کا واحد حل ہی یہ ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کیلئے عدالت کی 23 نومبر تک کی مہلت

انھوں نے کہا کہ 'ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی ایک ایسی غلطی تھی جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اور حکومت کو چاہیے کہ زاہد حامد اور انوشہ رحمٰن سے فوری طور پر استعفیٰ لے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ غلطی حکومت سے ہوئی اور جب اس کے خلاف علمائے کرام سڑکوں پر نکلے تو پھر اس میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارے کیوں کیے جارہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا 'آج حکومت نے ختم نبوت سے متعلق شق میں ترمیم کی اور اگر ذمہ داروں کو سزا نہ ہوئی تو کل اسلام میں کوئی اور ترمیم کردی جائے گی، لہذا دھرنے کے شرکاء کا مؤقف بلکل درست ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور اس میں ترمیم یا ایسی غلطیاں کرنا بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔

'حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے'

فیصل واوڈا نے کہا کہ جس طرح 15 روز سے اسلام آباد جیسے شہر میں دھرنا جاری ہے، اُس سے واضح طور پر لگ رہا ہے کہ حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور یہ رٹ صرف جاتی امرا کے اجلاسوں میں نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روز 48 گھنٹوں کا وقت دیا جارہا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور نہ ہی اسلام آباد ہائیکوٹ کے حکم پر عملدرآمد ممکن ہوسکا۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گذشتہ روز کہا کہ عدالتی حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم عدالت سے دھرنا ختم کرانے کے لیے 23 نومبر تک کی مہلت حاصل کرلی ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو نہ ہٹانے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت حلف نامے کی بحالی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں