سوشل میڈیا پر محبت اور تصاویر لیک جیسے موضوعات پرمبنی ڈرامہ

اپ ڈیٹ 27 نومبر 2017
ڈرامہ ہر بدھ کو شب 8 سے 10 بجے نشر ہوتا ہے—پرومو فوٹو
ڈرامہ ہر بدھ کو شب 8 سے 10 بجے نشر ہوتا ہے—پرومو فوٹو

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو دنیا بھر میں وہ منفرد حیثیت حاصل ہے، جو کسی اور ملک کی ڈرامہ انڈسٹری کو نہیں۔

ماضی میں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے اچھوتے اور سماجی موضوعات پر مبنی ڈرامے ہوں، یا پھر نئے دور کے نجی ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے حالیہ رجحانات پر بنائے گئے ڈرامے، سب اپنی مثال آپ ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں کئی کئی ماہ تک بھی کوئی اچھا ڈرامہ نہیں بنتا، تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ متعدد بار پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بیک وقت کئی اچھے ڈرامے نشر ہو رہے ہوتے ہیں، جو نہ صرف پاکستان کے سماجی حالات کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ وہ ناظرین کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔

حال ہی میں ’اڈاری‘، ’سمی‘، ’یقین کا سفر‘، اور ’تیری رضا‘ جیسے ڈراموں کے بعد اب نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی ڈیجیٹل‘ پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’ایسی ہے تنہائی‘ بھی ایک ایسا ڈرامہ ہے، جو یقینا نہ صرف عام ناظرین کو پسند آئے گا، بلکہ یہ ڈرامہ ملک کی نئی نسل کی توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کی اگرچہ ابھی چند قسطیں ہی نشر ہوئیں ہیں، تاہم ابتدائی قسطوں میں ہی ڈرامے نے اپنے اچھوتے اور حالیہ دور کے بہت بڑے موضوع کو ہائی لائیٹ کرنے کی وجہ سے ناظرین کی بھرپور توجہ حاصل کرلی ہے۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کو اے آر وائی ڈیجیٹل پر بدھ کی شب رات 8 سے 10 بجے نشر کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈراما اڈاری میں 'غیراخلاقی مواد'

ڈائریکٹر بدر محمود کے اس ڈرامے کا اسکرپٹ محسن علی نے لکھا ہے، جب کہ اس ڈرامے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے اداکارہ نادیہ خان نے طویل عرصے بعد ڈراموں میں واپسی کی ہے۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کی دیگر کاسٹ میں سونیا حسین، سمیع خان، صبا حمید، شہریار زیدی، سیمی پاشا، کامران جیلانی اور سعدیہ غفار سمیت دیگر شامل ہیں۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کی کہانی ایسی نوجوان نسل کے گرد گھومتی ہے، جو سوشل میڈیا اور اسمارٹ موبائلز کا استعمال کرتے ہوئے جہاں ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتی ہے، وہیں وہ نوجوانی کی لہر میں غلط اور صحیح کی پہچان کیے بغیر ایک دوسرے پر اندھا اعتبار بھی کرتی ہے۔

ڈرامے میں سوشل میڈیا اور اسمارٹ موبائل کا استعمال کرنے والی کالج اور یونیورسٹیز کی طالبات و طلبہ کو دکھایا گیا ہے، جو ایک دوسرے سے محبت تو کرتے ہیں، لیکن اسمارٹ موبائل اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی ان کے رشتوں میں شکوک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں۔

ڈرامے میں حالیہ دور کے نوجوانوں کے پسندیدہ موضوع کی عکاسی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ جسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ نئی نسل کس قدر اسمارٹ موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی اقدار کو غیر اہم سمجھ کر اپنے طے کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں نوجوان نسل کی جانب سے سوشل میڈیا اور اسمارٹ موبائل کے استعمال کومثبت انداز میں پیش کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’محبت اور یقین‘ جیسے رشتے ایسی ٹیکنالوجی کے محتاج نہیں ہوتے۔

ڈرامے کی ابتدائی قسطوں میں ہی ’ماہا‘ نامی یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی خودکشی پر بحث کی گئی ہے، جس کے باعث یہ ڈرامہ مزید متجسس اور دلچسپ بن گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'سمی': غیرت کے نام پر قتل پر مبنی ڈرامہ

’ماہا‘ کے یونیورسٹی دوستوں کو ان کی خودکشی کی خبر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کی گئی ایک پوسٹ کے ذریعے اس وقت ملتی ہے، جب وہ معمول کے مطابق یونیورسٹی میں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

’ماہا‘ دراصل اپنے بوائے فرینڈ کی وجہ سے تصاویر لیک کیے جانے کے بعد خودکشی کرلیتی ہیں۔

دوست ’ماہا‘ کی خودکشی کی خبر سن کر جہاں پریشان ہوجاتے ہیں، وہیں ان میں یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ اس کی خودکشی میں غلطی کس کی ہے، اور اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟۔

کچھ دوستوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس قدم کی ذمہ دار خود ماہا ہی ہیں، کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں، اس قدم کا ذمہ دار ’ماہا‘ کا بوائے فرینڈ ہے، جس نے اس کے ساتھ دھوکا کیا۔

یہ بحث اس وقت مزید الجھ جاتی ہے، جب ڈرامے کی مرکزی کردارپاکیزہ (سونیا حسین) کہتی ہے کہ آخر ’ماہا‘ نے اپنے بوائے فرینڈ پر اتنا بھروسہ ہی کیوں کیا، اسے بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

پاکیزہ کے اس جملے پر ڈرامے کا ایک اور مرکزی کردار حمزہ (سمیع خان) یہ سوال کرتا ہے کہ ماہا کو کیوں اعتبار نہیں کرنا چاہیے؟۔

اپنی دوست ’ماہا‘ کی خودکشی کی خبر پر اپنے دوستوں کی بحث دیکھ کر دیگر دوست پریشان ہوجاتے ہیں، تاہم حمزہ کہتا ہے کہ یہ فالتو بحث نہیں ہے، اور اس بحث کا تعلق ماہا کی خودکشی سے ہے۔

حمزہ دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر رشتے کی بنیاد ’اعتبار‘ پر ہوتی ہے، اس لیے ’اعتبار‘ کے بغیر کوئی رشتہ آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حمزہ اپنی ہی محبت پاکیزہ سے سوال کرتا ہے کہ اگر وہ ماہا کی جگہ ہوتی تو کیا کرتی اور کیا پاکیزہ کو حمزہ پر اعتبار ہے یا نہیں؟۔

حمزہ کے سوال پر پہلے تو پاکیزہ حیران رہ جاتی ہے، لیکن بعد میں وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ ماہا کی خودکشی کے تناظر میں پوچھنا چاہتا ہے تو اسے حمزہ پر بلکل بھی یقین نہیں۔

اپنی ہی دوست کی خودکشی کی خبر پرہونے والے بحث میں الجھنے کے بعد ایک دوسرے سے بے شمار محبت کرنے والے حمزہ اور پاکیزہ کے رشتے میں بھی شکوک جنم لینے لگتے ہیں، اور وہ کئی دن تک ایک دوسرے سے خفا رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نازیبا مناظر کا ڈرامہ نشر کرنے پر ٹی وی چینل کو نوٹس

اگرچہ ڈرامے میں آگے چل کر حمزہ اور پاکیزہ کے درمیان شکوک کو ختم ہوتے دکھایا گیا ہے، تاہم پورے ڈرامے میں ایسے موضوعات کو نہایت ہی مثبت اور اچھے طریقے سے بڑھایا گیا ہے۔

ڈرامے میں نوجوانوں کی جانب سے اسمارٹ موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے لڑکیوں کی لیک کی جانے والی تصاویر کو دیکھ کر مزے لیتے ہوئے اور ان تصاویر کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے، ساتھ ہی لڑکیوں کی لیک ہونے والی تصاویر پر لڑکوں کی جانب سے طرح طرح کی باتیں کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

اچھوتے موضوع کی وجہ سے ناظرین بھی ڈرامے کو دیکھتے ہوئے بوریت کا شکار نہیں ہوتے۔

’ایسی ہے تنہائی‘ کو دیکھ کر نئی نسل کو رویوں کا جائزہ لینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں