رواں ہفتے جاری ہونے والے نئے امریکی سروے کے نتائج کے مطابق بھارت کے اکثر شہری وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو سراہتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ رویے پر ناخوش ہیں۔

واشنگٹن میں مقیم پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 5 میں سے ایک بھارتی شہری نریندر مودی کے پاکستان سے متعلق رویے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ آدھے سے زیادہ عوام امریکا کے ساتھ تعلقات کے پر خوش ہیں۔

سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارتی عوام کی آدھی سے بھی کم تعداد نریندر مودی کے روس سے تعلقات کو قبول کرتی ہے جبکہ صرف ایک تہائی عوام مودی کے چین سے تعلقات کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: مودی کی حکومت، ہندوستانی مسلمانوں کا ڈراؤنا خواب

مودی کے پاکستان سے تعلقات کی حمایت کے حوالے سے سوال پر صرف 21 فیصد جواب دہندگان نے حامی بھری جبکہ 42 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔

مودی کے امریکا سے تعلقات پر صرف 9 فیصد عوام نے مخالفت کی جبکہ 55 فیصد اس کے حامی تھے اور 36 فیصد نے اپنی رائے دینے سے انکار کیا۔

اسی طرح صرف 14 فیصد عوام نے مودی کی حکومت میں روس سے تعلقات کی مخالفت کی جبکہ 56 فیصد نے اس کی حمایت کی۔

مودی کی حکومت میں چین کے بھارت سے تعلقات پر 30 فیصد عوام نے حمایت کی جبکہ 33 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں: مودی کی سب سے بڑی کمزوری

سروے کرنے والوں کے مطابق اس تشخیص میں گزشتہ سال سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی جبکہ 10 میں سے 4 جواب دہندگان نے اپنی رائے کے اظہار سے انکار کیا۔

پیو ریسرچ سینٹر کا سروے بھارت میں 21 فروری سے 10 مارچ 2017 تک کیا گیا تھا جس میں 2 ہزار 4 سو 64 جواب دہندگان سے مذکورہ نتائج حاصل کیے گئے۔

سروے میں مزید بتایا گیا کہ بھارتی عوام وزیر اعظم نریندر مودی کے ملک کے لیے کیے گئے اقدامات اور بڑھتی ہوئی معیشت سے خوش ہیں۔

مزید پڑھیں: مودی کی نئی حکمتِ عملی کے نقصانات

سروے کرنے والوں کی جانب سے جاری بیانیے میں کہا گیا کہ مودی اپنے 5 سالہ دور میں 3 سال مکمل کرچکے ہیں لیکن بھارت کی موجودہ صورت حال پر بھارتی عوام خوش ہیں۔

سروے کے نتائج کے مطابق 2015 سے اب تک نریندر مودی کی مقبولیت بھارت کے شمالی علاقوں میں تبدیل نہیں ہوئی جبکہ مغرب اور جنوبی بھارت میں بڑھی ہے اور مشرقی بھارت میں کم ہوئی ہے۔

سروے کے مطابق نریندر مودی بھارت میں اب تک کی مقبول ترین سیاسی شخصیت ہیں اور ان کی بھارت میں مقبولیت کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی سے 31 فیصد جبکہ راہول گاندھی سے 30 فیصد زیادہ ہے۔


یہ خبر 21 نومر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں