پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) نے 2017 سے 2030 کے لیے طویل المدتی منصوبہ (ایل ٹی پی 2030-2017) کی منظوری دے دی۔

تاہم اس ضمن میں خصوصی معاشی و صنعتی زون اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے معاہدے کی تفصیلات واضح نہیں ہوئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی وفد نے اعلیٰ حکام سے پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے منفی اثرات سی پیک منصوبے پر پڑ سکتے ہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان جاری اجلاس اپنے مقررہ وقت سے 4 گھنٹے سے زائد وقت تک ہونے والے اجلاس میں دونوں اطراف سے ٹیکس معاملات کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی جبکہ خصوصی معاشی زونز کے لیے بھی مالیاتی معاہدے میں محصولات کے نظام پر بھی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔

مزید پڑھیں: سی پیک سے ہمیں کتنے فوائد حاصل ہوں گے؟

اجلاس کا زیادہ تر وقت چین کی جانب سے خیبر پختونخوا میں حطار صنعتی اسٹیٹ کے تیار انفراسٹرکچر کو پشاور کے قریب راشاکئی پر ترجیح دینے پر اصرار کرنے میں گزرا تاہم فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے میں صوبے کی ترجیحات کو زیر غور لایا جائے گا۔

اجلاس کے آخر میں وزیر داخلہ اور وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ستمبر 2014 میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران سیاسی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کی وجہ سے سی پیک کے افتتاح میں تاخیر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان دھرنے سے آگے بڑھ کر معاشی قوت بننا ہے، لیکن مظاہرین کی وجہ سے ملک کا نام بدنام ہو رہا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی معیشت کو روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک میں پاکستانیوں کے لیے بھی سرمایہ کاری کرنے کا موقع

انہوں نے کہا کہ طویل المدتی منصوبہ کی گزشتہ کئی مہینوں سے تیاری کی جارہی تھی جس میں پاکستان اور چین کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہم اس معاہدے پر پہنچ گئے اور طویل المدتی منصوبہ جس میں دو طرفہ معاشی تعاون شامل ہے 2030 تک کے لیے منظور کرلیا گیا ہے'۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں پاکستان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کی مشکلات کو دور کرنا ہے تاکہ معاشی ترقی آگے بڑھ سکے جس کے لیے 46 ارب ڈالر میں سے 35 ارب ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں اور آج 27 ارب ڈالر کے منصوبے اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ طویل المدتی منصوبے میں وسیع فریم ورک اور دو طرفہ تعاون پر فیصلہ ہوچکا ہے جس میں صنعت کاری، روزگار کے مواقع شامل ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ خصوصی معاشی زونز پر سرمایہ لگایا جائے گا جبکہ کاشتکاری اور جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کا قیام عمل میں آ ہوچکا ہے۔

پانی کے ذخائر کم ہونے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جوائنٹ ورکنگ گروپ چین سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور آبپاشی کے نظام پر کام کرے گا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سیاسی پارٹیاں سی پیک پر باہمی اختلافات ختم کریں، چین

اجلاس میں گوادر پورٹ پر کام کی رفتار کو تیز کرنے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے آئندہ روز گوادر کے مشرقی بے ایکسپریس وے کے افتتاح کیے جانے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 19 کلومیٹر طویل ایکسپریس وے میں 4.5 کلومیٹر کی لمبائی پر مشتمل ایک پل بھی شامل ہے جسے سمندر کے اوپر بنایا گیا ہے اور یہ ایکسپریس وے گوادر بندر گاہ کو ملک کے مشرقی حصے سے جوڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے گوادر ہوائی اڈے کی آئندہ سال کے درمیانی حصے میں تعمیر کا کام شروع کیے جانے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اس کے ڈیزائن کو چینیوں کی جانب سے جانچا جا رہا ہے جنہوں نے اس کی تعمیر کے لیے فنڈ دینے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے محصولات اور سیکیورٹی کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے بعد معاملے کے حل کے لیے ورکنگ گروپ قائم کردیا گیا۔

احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں تمام وزرائے اعلیٰ کی اور ان کے نمائندوں کی شرکت سے قوم کو ملک کی ترقی کے لیے ہمارے متحد ہونے کا پیغام گیا ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ طویل المدتی منصوبے کو عوام کے سامنے لانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے عوام کو نئے آنے والے سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں معلومات ہوگی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی سرکولر ریل وے منصوبے کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مین لائن ریل وے منصوبے کے لیے کیے گئے سروے کی دوبارہ نظر ثانی کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس پر 2 سے 3 مہیںوں میں کام کا آغاز کردیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

اسی موقع پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ انہیں حطار صنعتی اسٹیٹ کے ایجنڈے میں شامل ہونے پر حیرت ہوئی کیونکہ صوبائی حکومت نے راشاکائی میں صنعتی زون کے قیام کے لیے 2 ہزار کینال کی زمین دے رکھی ہے اور چین کی جانب سے فنڈ کے بجائے قرض دیے جانے کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت اب سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دیامر اور بھاشا ڈیم کے سی پیک سے نکالے جانے کی وجہ سے 3500 میگا واٹ بجلی اب اضافی ہے جس میں سے 1900 میگا واٹ بجلی صوبے کی تجویز پر لی جارہی ہے اور 1600 میگا واٹ پنجاب اور آزاد کشمیر کو دی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ گلگت-بلتستان-چترال روڈ، گریٹر پشاور ریل اور پشاور- طورخم روڈ کو سی پیک کے اگلے مرحلے کا حصہ بنایا جائے گا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 22 نومبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں