کراچی: غربت بڑھنے کے باوجود پاکستان میں ادویات کی قیمت میں گزشتہ ماہ سالانہ بنیاد پر 15.68 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے افراط کے حوالے سے اکتوبر کے مہینے کی رپورٹ جاری کردی جس میں ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ بتایا گیا۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق افراط زر کی شرح سالانہ طور پر 3.8 فیصد سے کم ہوئی ہے لیکن صرف ادویات میں افراط زر کی شرح میں 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ یہ اکتوبر 2016 میں 7.8 فیصد تھی۔

مزید پڑھیں: بیرونی، مالیاتی اکاؤنٹس پر دباؤ برقرار رہے گا، اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق طبی ٹیسٹ کے افراط زر میں 6.23 فیصد جبکہ کلینک کی فیس میں 5.75 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔

خیال رہے کہ ادویات کی مقامی پیداوار کے علاوہ پاکستان میں فارماسیوٹیکل مصنوعات بڑی مقدار میں بیرونی ممالک سے در آمد بھی کی جاتی ہیں۔

در آمد کی گئی مصنوعات کی قیمتوں میں روپے کی قدر میں تبدیلی کی وجہ سے فرق پیدا ہوتا ہے لیکن روپیہ اور ڈالر کی قدر میں گذشتہ سال سے اب تک کوئی واضح فرق نہیں دیکھا جاسکا۔

اقوام متحدہ کے کومٹریڈ (COMTRADE) ڈیٹابیس برائے بین الاقوامی تجارت کے مطابق پاکستان میں 2016 میں فارماسیوٹیکل مصنوعات کی درآمدات 71 کروڑ 52 لاکھ 30 ہزار ڈالر رہی جبکہ 2017-2016 کی برآمدات 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بلڈ ٹیسٹ، یورین ٹیسٹ اور ایکسرے کی قیمتوں میں 5 سے 10 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معیشت پر تنقید اور گورنر اسٹیٹ بینک کا غصہ

علاوہ ازیں تعلیم کے شعبے میں افراط زر کی شرح میں 11.46 فیصد، گاڑیوں کے تیل میں 9.69 فیصد اور گھر کے کرائے میں 6.49 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2016 میں گاڑیوں کے تیل کی قیمت میں 7.5 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔

تاہم کنزیومر پرائس انڈیکس میں گزشتہ سال کے 4.2 فیصد کے مقابلے میں اس سال 3.8 فیصد کمی دیکھی گئی جس کی وجہ سے ایندھن، رہائش اور تعلیم کی قیمتوں میں بڑھنا بتایا گیا ہے اور اس کا اثر عام پاکستانی کی آمدنی پر پڑا۔


یہ خبر 22 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں