سپریم کورٹ میں اسلام آباد دھرنے سے متعلق وفاقی وزارتِ دفاع اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی رپورٹس عدالت میں پیش کردی گئیں تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔

جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وفاقی دارالحکومت میں فیض آباد دھرنے پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے لیے گئے نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں وفاقی وزارت دفاع اور وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئیں جس پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رپورٹس کا جائزہ لیا؟

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کو دھرنے سے متعلق قبل از وقت آگاہ کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کا نوٹس لے لیا

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ میڈیا دھرنے پر موجود لوگوں کو اتنی کوریج کیوں دے رہا ہے اور اس وقت پاکستان ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کہا ہے۔

انہیں سوال کیا کہ دھرنے والوں کا خرچ کون اٹھا رہا ہے اور حکومت دھرنے والوں کے اخراجات کی تحقیقات کیوں نہیں کر رہی؟

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل پاکستان سے سوال کیا کہ کل کو کوئی دشمن آکر سڑکوں پر قبضہ کرلے تو کیا حکومت ان سے مذاکرات کرے گی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصادم کا خطرہ ہونے کی وجہ سے حکومت احتیاط سے کام لے رہی ہے جبکہ ہم تشدد کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کے اخراجات 12 کروڑ روپے سے تجاوز کرگئے

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی وعدہ خلافی ہوچکی ہے اور اب بھی وعدہ خلافی ہورہی ہے تو کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے؟

اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہم نے دھرنے والوں کو بھیجا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والے کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ دھرنے والے 17 دن سے کیسے کھا پی رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مقامی لوگ مدد کررہے ہیں جبکہ دھرنے میں شریک لوگ مسلح بھی ہیں لہٰذا حکومت ربیع الاول کے مہینے میں حکومت خون خرابہ نہیں چاہتی۔

انہوں عدالت کو مزیر بتایا کہ دھرنے والوں کے خلاف اب تک 19 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 169 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ دھرنا ختم کرانے کے لیے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہ حکومت ٹھوس اقدامات کرنے والی ہے جس کی تفصیلات آپ کو چیمبر میں بتائی جاسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس نے 8 افراد کو گرفتار کرلیا

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیمبر میں تفصیلات نہ بتائی جائیں بلکہ سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کو منظر عام پر لانے سے اسکا اثر زائل ہو جائے۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آج ہی آپ کو سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں جن میں سے کچھ خفیہ رکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دھرنے والوں کی تعداد بڑھ نہیں رہی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں ایسی بات موجود نہیں جو اخبار میں نہ چھپی ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹیلی جنس اپنا کام ٹھیک نہیں کررہی، یہ ملک کا مضبوط ادارہ ہے اسے ڈیلیور کرنا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ دھرنے کے پیچھے کون ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے اور اگر اس میں غیر ملکی ملوث ہیں تو اس سے دھرنے کے قریب واقع دفاعی اثاثوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے اور پینے کی سپلائی لائن بند کرنے اور ان کے اکاؤنٹس کو منجمند کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد کے علاقے میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے پر ازخود نوٹس کی سماعت کو آئندہ جمعرات (30 نومبر) تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز (22 نومبر کو) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر سیکیورٹی اہلکاروں اور دھرنے پر موجود مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے درجنوں اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا مظاہرہ

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گزشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 17 نومبر کو ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔

اس حکم نامے سے ایک روز قبل (16 نومبر کو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختم بنوت کی شق کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے والے ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو اپنا دھرنا فوری ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت حلف نامے کی بحالی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو نہ ہٹانے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ روز احتساب عدالت میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم عدالت سے دھرنا ختم کرانے کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی جائے۔

تاہم عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا جبکہ سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر اسلام آباد کو شوکاز نوٹسز جاری کردیئے تھے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: مظاہرین اور پولیس میں تصادم، درجنوں افراد زخمی

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور تشدد کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا تھا جس کا مقدمہ دھرنے میں موجود قائدین کے خلاف درج کیا گیا جس کے بعد ان پر درج مقدمات کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔

اسلام آباد پولیس نے دھرنے میں شرکا کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے فیض آباد انٹرچینج پر پولیس کے ساتھ جھڑپ کرنے والے 8 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

مظاہرین اور حکومت کے ناکام مذاکرات

واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے علماء اور مشائخ کی موجود گی میں مظاہرہ کرنے والی تنظیموں کے قائدین سے مذاکرات کی کوششیں کی اور اس کے لیے مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے گئے اور تمام ہی مرتبہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔

رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمٰن نے حکومت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ معاملے کا پُر امن حل تلاش کریں، جس کی وجہ سے دارالحکومت کے معاملات 2 ہفتوں سے انتہائی خراب صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Ahmad Qasrani Nov 23, 2017 06:16pm
True