'غربت سے لڑ کر مٹی سے گھر چلاتا ہوں'

'غربت سے لڑ کر مٹی سے گھر چلاتا ہوں'

عادل عزیز خانزادہ

کہتےہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا،مگر جب یہی شوق انسان کی ضرورت بن جائے،تو پھر وہ زمانے اور وقت کی بھی پروا نہیں کرتا، محمد صدیق بھی ایسی ہی ایک اعلیٰ مثال ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کی 3 دہائیاں مٹی کے برتن بنانے میں صرف کردیں اور آج کوئی مناسب روزگار نہ ہونے کے باعث یہی کام ان کا ذریعہ معاش بن چکا ہے۔

سندھ کے دارالحکومت کے علاقے نیو کراچی کے رہائشی 51 سالہ محمد صدیق گذشتہ 35 سال سے مٹی سے بنے برتن اور دیگر اشیاء بنا کر فرخت کررہے ہیں، جن کا خیال ہے کہ یہ قدیم روایت کم تو ضرور ہوسکتی ہے، مگر اس کا ختم ہونا شاید ممکن نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پلاسٹک سے بنی چیزوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، صدیق اپنے اس فن کو ایک نئے روپ میں ڈھال کر پیش کر رہے ہیں۔

مٹی سے بنے رنگا رنگ برتن، گھریلو اشیاء اور ان پر نقش نگاری تو آپ نے بہت بار دیکھی ہو گی، مگر صدیق کا یہ کمال دیکھنے والے کو اُس وقت حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے، جب وہ اسی مٹی سے ایسے شاہکار تخلیق کرتے ہیں، جو مٹی کے بجائے درخت کی لکڑی سے بنے نظر آتے ہیں۔

محمد صدیق کی مہارت اُن کی رہائش گاہ پر ارد گرد موجود کئی ایسی چیزوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جو ان کی اِس پیشے سے لگن اور محنت کا اندازہ باخوبی دے رہی ہوتی ہیں۔

محمد صدیق بتاتے ہیں کہ پہلے یہ کام اُن کے والد کیا کرتے تھے اور انہیں دیکھ کر ہی ان میں اس کام کا شوق پیدا ہوا۔

دور جدید کی ترقی کا حال بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لوگ اب نت نئی چیزوں اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہورہے ہیں، اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے مٹی کو لکڑی کی شکل دینے کا سوچا تاکہ معدوم ہوتی روایت کو زندہ رکھا جاسکے۔

اس ماہر کاریگر نے یہ کام بھی والد سے ہی سیکھا تھا تاہم آہستہ آہستہ وہ خود نئے تجربات کرتے رہے، اس کام لائی گئی جدت کا سہرا وہ خود لیتے بھی ہیں۔

اپنے کام کے حوالے سے محمد صدیق بتاتے ہیں کہ ایک روز میں بیٹھا تھا، تو بس یوں ہی یہ سوچ بیدار ہوئی کہ کیوں نہ مٹی کے ذریعے اس طرح چیزیں بنائی جائیں تاکہ لوگوں میں انہیں خریدنے کی دلچسپی پیدا ہو، جب پہلی مرتبہ میں نے یہ تجربہ کیا تو کافی لوگ ان چیزوں کو دیکھنے میرے پاس آنا شروع ہوگئے۔

درخت کی شکل کا کولر

اگرچہ محمد صدیق کی بنائی ان اشیاء کو دیکھ کر سب ہی محظوظ ہوتے ہیں، لیکن ان میں سب سے منفرد چیز پانی کا کولر ہے، جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا یا مٹی کا کولر یا پھر کوئی درخت ہے۔

محمد صدیق دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کولر اب تک پورے پاکستان میں اور کہیں موجود نہیں، جب سے انھوں نے اسے بنانا شروع کیا، اُس دن سے لوگ اسے خریدنے کے لیے ان کے پاس آتے ہیں'۔

ان کے بقول انہوں نے اس کولر کو اس سوچ کے ساتھ ڈیزائن کیا تاکہ اس میں ایک اصلی درخت کی جھلک نمایاں ہو۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر وہ لوگ اس کولر کی فرمائش کرتے ہیں جن کے ہاں کوئی شادی کی تقریب ہو، جہاں پھر وہ اسے تحفے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

کولر بنانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کولر کی بناوٹ میں پلاسٹک یا کسی قسم کی بھی دوسری چیز کا استعمال نہیں ہوا، یہ صرف چکنی یا سرخ مٹی سے ہی بنایا جاتا ہے، اسی وجہ سے اسے بنانے میں 15 روز کا وقت درکار ہوتا ہے۔

محمد صدیق پہلے مٹی سے درخت کی مختلف ٹہنیاں بناتے ہیں، پھر انہیں ایک گملے کے ساتھ جوڑ کر آگ پر پکایا جاتا ہے اور یوں جب یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے، تو آخر میں اس پر رنگ کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔

مٹی سے بنی دلکش آبشار

محمد صدیق یہ ہنر مندی صرف کولر تک ہی محدود نہیں، بلکہ مٹی سے بنی آبشار بھی انہیں کے اس فن کا کمال ہے اور اسے کس خوبصورتی کے ساتھ بنایا گیا ہے، اس کا اندازہ تو اسے دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔

محمد صدیق نے کہا کہ یہ آبشار بھی لوگوں میں زیادہ پسند کی جانے لگی ہے، جس میں پانی کی موٹر لگنے کے بعد اس کی خوبصورتی مزید بڑھ جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی کے کولر کی طرح اس آبشار کو بنانے میں وقت لگتا ہے، کیونکہ اس میں کافی سارے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر حصے کو اس طرح سے ساتھ ملایا جاتا ہے، جس سے اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی چیز بھی مختلف نہ لگے۔

محمد صدیق نے بتایا کہ وہ مہینے میں 15، 15 دن کے حساب سے مٹی خریدتے ہیں اور اسی کی مدد سے ان چیزوں کو بنا رہے ہیں۔

صدیق نہ صرف یہ برتن اور عام ضروریات کی چیزیں بناتے ہیں، بلکہ وہ اکوریم میں رکھنے والے مختلف اقسام کی ایسی سجاوٹی آئٹمز بھی تیار کرتے ہیں، جن ملکی ثقافت کی بھی عکاسی ہوتی ہے، ان میں خوبصورت گھر، گلدان اور ساتھ ہی پہاڑ وغیرہ بھی شامل ہیں۔

ان سجاوٹی اشیاء میں بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن میں مٹی کے ساتھ ساتھ لکڑی کے استعمال کا گمان ہوتا ہے، مگر حقیقتاً یہ سب مٹی سے بنی ہیں، جن میں گھر کے ساتھ ایک چھوٹا سا درخت بھی بنایا گیا ہے۔

مجسمہ سازی کا فن

جس جگہ پر بیٹھ کر محمد صدیق یہ سب کام کرتے ہیں، وہاں پر ہمیں انسانی شکل کا ایک ایسا خیالی مجسمہ بھی ملا، جس میں قدیم اور مغل دور کی یاد کو تازہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے نہایت مہارت کے ساتھ بنایا گیا تھا۔

محمد صدیق نے بتایا کہ مجسمہ سازی ان کے کام کا حصہ نہیں، مگر برسوں کے اس شوق کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر مجسمے بناتے ہیں، جسے دیکھ کر اس پیشے سے ان کی محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

’پیسے ہیں نہیں، مٹی کی چیزیں بنا کر گھر چلاتا ہوں'

محمد صدیق یہ سب کام اپنے ایک چھوٹے سے گھر کے باہر ہی بنی عارضی جھونپڑی میں بیٹھ کر کرتے ہیں، جہاں سردی ہو یا پھر گرمی انہیں موسم کی شدت کا بھی احساس نہیں ہوتا اور چاہے پھر کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں وہ ان کے آگے ہار نہیں مانتے۔

انہوں نے بتایا کہ غربت سے لڑ کر مٹی سے گھر چلا رہے ہیں، وہ بہت غربت کی حالت میں زندگی گزرنے پر مجبور ہیں اور اس سے لڑ رہے ہیں، کیونکہ آج تک حکومتی یا عوامی سطح پر کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آیا اور کچھ لوگ تو بس چیزیں دیکھ کر ہی چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے 2 بچے ہیں اور کوئی سہارا نہیں، دوسرا کوئی کام کرنے کے لیے اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے اور نہ ایسی حالت کو دیکھ کر کوئی نوکری دیتا ہے، یہ کام میرا اب واحد سہارا بن چکا ہے، جس سے گھر کا چولہا چلتا ہے۔

ان اشیاء فروخت پر مالی فائدہ کتنا ہوتا ہے؟ یہ ایسا سوال تھا جس پر محمد صدیق کہتے ہیں کہ اگر کوئی خریدار نہیں آتا تو کوئی ایک آئٹم زیادہ تعداد میں مختلف دکانداروں کو فروخت کرتے ہیں، اس طرح دکاندار فی آئٹم 50 روپے کے حساب سے خرید کر 300 سے 400 روپے میں آگے فروخت کرتے ہیں، لہذا ان کی محنت کا وہ معاوضہ نہیں مل پاتا جو ملنا چاہیے۔

ماضی میں لوگ مٹی کے برتن شادی بیاہ میں جہیز کے طور پر دیا کرتے تھے اور اس وقت علاقے کے کمہار کی اہمیت بھی زیادہ تھی، مگر اب ایسے حالات نہیں ہیں، محمد صیق کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت نے جدت کا لبادہ اوڑھا، ویسے ویسے سوچ میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔