اگر ’ٹائی ٹینک‘ فلم کا ہیرو نہ مرتا تو کیا ہوتا؟

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2017
فلم کا ہیرو اپنی محبوبہ کو بچانے کے لیے اسے لکڑی کے تختے پر بٹھا دیتا ہے—اسکرین شاٹ
فلم کا ہیرو اپنی محبوبہ کو بچانے کے لیے اسے لکڑی کے تختے پر بٹھا دیتا ہے—اسکرین شاٹ

ہولی وڈ تاریخ میں دوسرے نمبر پر زیادہ پیسے بٹورنے والی رومانٹک ڈزاسٹر بائیو پک فلم ’ٹائی ٹینک‘ کو ریلیز ہوئے 20 برس ہوچکے، تاہم لوگ اب بھی اس فلم کے سحر سے نہیں نکل پائے۔

اگرچہ فلم کی ٹیم نے اسے بیسویں سالگرہ کے موقع پرآئندہ ماہ دسمبر سے ٹو ڈی اور تھری ڈی میں دوبارہ نمائش کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تاہم لوگ اب بھی جاننا چاہتے ہیں کہ بالآخر ’ٹائی ٹینک‘ کو اسی طرح ہی کیوں بنایا گیا، اسے مختلف طریقے سے بھی تو بنایا جاسکتا تھا۔

’ٹائی ٹینک‘ کے حوالے سے اگر لوگوں اور خصوصی طور پر نئی نسل کے ذہن میں جو سب سے زیادہ سوال اٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس فلم کے آخر میں ہیرو ’جیک‘ (لیونارڈو ڈی کیپریو) کو کیوں مار دیا گیا، اسے بچایا بھی تو جاسکتا تھا۔

فلم کے اختتام پر ہیرو کو مرتے ہوئے دکھایا گیا تھا—اسکرین شاٹ
فلم کے اختتام پر ہیرو کو مرتے ہوئے دکھایا گیا تھا—اسکرین شاٹ

خیال رہے کہ ’ٹائی ٹینک‘ میں فلم کا نوجوان اور خوبصورت ترین ہیرو’جیک‘اپنی محبوبہ اور بقول ان کے دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی ’روز‘ (کیٹ ونسلیٹ) کو بچانے کے لیے خود برفیلے ٹھنڈے پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے، لیکن اپنی محبوبہ کو ایک لکڑی کے تختے پر بٹھا دیتا ہے۔

اور لوگوں کو اسی منظر پر سب سے زیادہ افسوس اور دکھ ہوا، یہاں تک کہ لوگ 20 سال بعد بھی فلم میں ’جیک‘ کی موت کو نہیں بھولے۔

فیشن اور شوبز میگزین ’وینٹی فیئر‘ نے ’ٹائی ٹینک‘ کے فلم ساز کیمرون جیمز سے یہی سوال کیا کہ لوگ آج بھی سب سے زیادہ یہ پوچھتے ہیں کہ فلم کے آخر میں ’روز‘ نے ’جیک‘ کو اپنے ساتھ لکڑی کے تختے پر کیوں نہیں بٹھایا، یہ دونوں تختے پر بیٹھ کر زندہ بچ بھی سکتے تھے، اور یہ کہ بالآخر’جیک‘ کو مارا ہی کیوں گیا؟

جیمز کیمرون نے ‘جیک‘ کو مارنے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر فلم کے ہیرو کو آخر میں مار نہیں دیا جاتا تو فلم مقصد سے خالی ہوجاتی۔

یہ بھی پڑھیں: ’ٹائی ٹینک‘ کی 20 سال بعد تھری ڈی میں نمائش

جیمز کیمرون نے کہا کہ فلم کی کامیابی ہی ’جیک‘ کے مرنے سے ہوئی، فلم کے اسکرپٹ کے صفحے نمبر 147 پر اس کی موت لکھی ہوئی تھی، اور یہ کہ فلم کی کہانی بھی ’موت اور علیحدگی‘ کے بارے میں ہے۔

شہرہ آفاق فلم کے ہدایت کار نے کہا کہ ’جیک‘ کو اس طرح مرتے ہوئے دکھانا ایک فنکارانہ پسند تھی، اور اسے یخ ٹھنڈے برفیلے پانی میں ڈوب کر مرتے ہوئے دکھانا اور اس کے جسم سے دھویں کے اخراج کو دکھانا بھی فنکارانہ پسند تھی، اور یہ کہ اس کی موت کو بھی فلم اور فنکارانہ پسند سوچ کے تحت دیکھا جائے۔

جیمز کیمرون نے اپنے اس انٹرویو میں ’ٹائی ٹینک‘ سے متعلق دیگر سوالوں کے جوابات بھی دیے، جب کہ انہوں نے اپنی دیگر فلموں ’اوتار‘ اور ’ٹرمینیٹر‘ پر بھی بات کی۔

خیال رہے کہ 1997 میں ریلیز کی گئی ’ٹائی ٹینک‘ نے دنیا بھر سے 2 ارب ڈالر (پاکستانی 2 کھرب روپے سے زائد) بٹورے تھے، جب کہ فلم نے متعدد آسکر ایوارڈ بھی جیتے۔

مزید پڑھیں: ٹائی ٹینک بار بار دیکھنے والی فلم

فلم کی کہانی 1912 میں حادثے کا شکار ہوئے دنیا کے پہلے بڑے برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے گرد گھومتی ہے، جس میں 1500 سے 5 ہزارکے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

فلم میں نہ صرف ’ٹائی ٹینک‘ کو ڈوبتے ہوئے دکھایا گیا، بلکہ اس جہاز میں ہونے والے رومانس اور دیگر واقعات کو بھی دکھایا گیا ہے۔ اسی فلم کے ذریعے ہی اداکارہ کیٹ ونسلیٹ اور لیونارڈو ڈی کیپریو کو شہرت ملی۔

اس فلم کے متعدد سین فلم کی ریلیز کے 10 سال بعد منظر پر آئے تھے، ایسے ہی مناظر میں فلم کا ایک سین 2013 میں بھی سامنے آیا تھا۔

سامنے آنے والے سین میں ’جیک‘ کی موت کے بعد زندہ بچ جانے والی ’روز‘ کو افسردہ حالت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

عدیل Nov 28, 2017 12:47am
صحیح کہا۔۔۔ ہیرو جیک کے مرنے کا بہت دکھ ہوا تھا ۔۔۔ اس کی موت کا دکھ ان 1500 لوگوں جن میں بچے اور خواتین بھی تھیں، سے بھی زیادہ تھا۔۔۔ حالانکہ وہ بھی اسی بے رحم رات میں یخ بستہ موجوں کے ہاتھوں زندگی سے آزاد ہوئے تھے