انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آتش فشاں پھٹ پڑا

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2017

انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں کئی روز سے دی جانے والی وارننگ کے بعد آخر کار پہاڑ سے آتش فشاں پھٹ پڑا۔

اس پہاڑ کا نام آگنگ ہے جس سے نکلنے والا دھواں چار ہزار میٹر تک اوپر اٹھا۔

خیال رہے کہ آخری مرتبہ یہ 1963 میں پھٹا تھا جس کے نتیجے میں تقریباً 1600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور کئی گاؤں تباہ ہو گئے تھے۔

انتظامیہ نے پہاڑ کے 8 کلو میٹر کے دائرے میں رہنے والے افراد کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر علاقہ خالی کر دیں۔

اس دوران کئی افراد کو ماسک بھی دیے گئے تاکہ وہ راکھ سے محفوظ رہیں۔

انڈونیشیا کا یہ جزیرہ جنوب مشرقی ایشیا میں سیاحت کے حوالے سے ایک اہم مقام مانا جاتا ہے، اور مغربی ملکوں سے ہزاروں سیاح یہاں ہر سال آتے ہیں۔

ماؤنٹ آگنگ انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر موجود آتش فشاں پہاڑ ہے —فوٹو/  اے پی
ماؤنٹ آگنگ انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر موجود آتش فشاں پہاڑ ہے —فوٹو/ اے پی
آتش فشاں پھٹنے کے بعد لاوے کا اخراج شروع ہوگیا — فوٹو/ اے ایف پی
آتش فشاں پھٹنے کے بعد لاوے کا اخراج شروع ہوگیا — فوٹو/ اے ایف پی
آتش فشاں پھٹنے کے باعث گزشتہ کئی روز سے ہزاروں سیاح بالی کے ائیر پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
آتش فشاں پھٹنے کے باعث گزشتہ کئی روز سے ہزاروں سیاح بالی کے ائیر پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
بالی انڈونیشیا کا ایک اہم ترین سیاحتی مقام ہے —فوٹو/ اے ایف پی
بالی انڈونیشیا کا ایک اہم ترین سیاحتی مقام ہے —فوٹو/ اے ایف پی
آتش فشاں کے پھٹنے سے جزیرے پر آنے والی پروازوں کو مشکالات کا سامنا ہے — فوٹو/ اے ایف پی
آتش فشاں کے پھٹنے سے جزیرے پر آنے والی پروازوں کو مشکالات کا سامنا ہے — فوٹو/ اے ایف پی
پہاڑ کے نزدیک سیاح تصویر بنوانے میں مصروف ہیں— فوٹو/ اے پی
پہاڑ کے نزدیک سیاح تصویر بنوانے میں مصروف ہیں— فوٹو/ اے پی
آخری مرتبہ یہ آتش فشاں 1963 میں پھٹا تھا —فوٹو/ اے پی
آخری مرتبہ یہ آتش فشاں 1963 میں پھٹا تھا —فوٹو/ اے پی
آتش فشائی راکھ کی وجہ سے جزیرے کے مکینوں کو حفاظتی ماسک دیےگئے — فوٹو/ اے پی
آتش فشائی راکھ کی وجہ سے جزیرے کے مکینوں کو حفاظتی ماسک دیےگئے — فوٹو/ اے پی
ماؤنٹ  آگنگ سے نکلنے والے دھویں کے بعد حکام نے علاقے میں وارننگ جاری کردی تھی — فوٹو /اے پی
ماؤنٹ آگنگ سے نکلنے والے دھویں کے بعد حکام نے علاقے میں وارننگ جاری کردی تھی — فوٹو /اے پی