اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی نے پی آئی اے طیارے کی فروخت میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے وزیر اعظم کی مدد طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے چیئرمین محمد رانا حیات خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس ملزمان کو قید کرنے کے اختیارات موجود ہیں۔

خیال رہے کہ دسمبر 2016 میں ایئر بس اے 310 طیارے کو درکار کارروائی کے عمل کو پورا کیے بغیر لیپزگ میوزیم، جرمنی کو فروخت کر دیا گیا تھا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جرمن حکام طیارے کی پارکنگ کے مد میں 2 لاکھ یورو کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’پی آئی اے کا گمشدہ طیارہ جرمنی میں موجود‘

طیارہ فروخت کے معاملے کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے سوال کیا کہ 'طیارے کو صرف 47 ہزار 5 سو یورو میں کیوں فروخت کیا گیا؟'

ان کا کہنا تھا کہ یہ طیارہ زیادہ پیسوں میں فروخت کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس طیارے کو فلسطینیوں کے خلاف بننے والی فلم میں بھی استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ایئر بس اے 310 طیارے کو پی آئی اے کی جانب سے 1993 میں خریدا گیا تھا جس کے بعد ان کے 20 سال مکمل ہونے پر پی آئی اے نے انہیں اوپن مارکیٹ میں بیچنے کا ارادہ کرتے ہوئے جولائی 2016 میں ٹینڈرز منگوائے تھے تاہم قومی ایئرلائن کو کوئی بولی موصول نہیں ہوسکی تھی۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ سابق پروکیورمنٹ ایئر کموڈور کے سابق ڈائریکٹر عمران اختر نے پی آئی اے کو طیارے کی فروخت کے لیے پیشکش کی تھی جسے پی آئی اے کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) برنڈ ہلڈن برانڈ نے منظوری دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ فروخت کا معاملہ:ایئر کموڈور عمران اختر کےخلاف تحقیقات کا فیصلہ

جوائنٹ سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن عبدالستار کھوکھر نے کمیٹی کو بتایا کہ برنڈ ہلڈن برانڈ جن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں سے 30 دن میں واپسی آنے کی شرط پر نکالا گیا تھا کبھی واپس نہیں آئے۔

عبد الستار کھوکھر کا کہنا تھا کہ پی آئی نے تسلیم کیا ہے کہ انہیں 47 ہزار 5 سو یورو (جس قیمت پر طیارے کو بیچا گیا تھا) موصول نہیں ہوئے اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ میوزیم میں طیارے کی پارکنگ کے اخراجات برداشت کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اے 310 کی فروخت کی قیمت اس کے فروخت کے اشتہار لگانے سے قبل طے کرلی گئی تھی تاہم بعد ازاں اس کا اشتہار لگایا گیا تھا جو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قائد کی خلاف ورزی ہے۔

عبد الستار کھوکھر کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اس معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا جبکہ طیارے کی فروخت کا فیصلہ جرمن سی ای او کی جانب سے اکیلے ہی لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایف 16 طیارے: امریکی کمپنی بیک وقت پاکستان کی حامی اور مخالف

قومی ایئرلائن کے طیارے کو فلم میں استعمال کیے جانے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لندن کی کمپنی نے اے 310 طیارے کو مالٹا میں فلم کی شوٹنگ کے لیے کرائے پر طلب کیا تھا جبکہ فلم کا نام اور اس کے بارے میں معلومات ہمیں فراہم نہیں کی گئی تھیں۔

طیارے کو فلم میں ایئرفرانس کے طیارے کے طور پر دکھایا گیا تھا جبکہ فلم کی شوٹنگ کے بعد اس پر واپس پی آئی اے کا نام پینٹ کردیا گیا تھا اور اسے مالٹا سے لیپزگ پہنچا دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نے اس معاہدے کے تحت 2 لاکھ 10 ہزار یورو وصول کیے تھے۔


یہ خبر 30 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں