لاہور کے مال روڈ پر مذہبی جماعت کا دھرنا حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہوگیا۔

تحریک لبیک یارسول اللہ کے دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ’ہم نے 25 نومبر کو مال روڈ پر مطالبات کے حق میں دھرنا دیا، جنہیں حکومت نے 7 روز بعد مان لیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومتی وفد سے کامیاب مذاکرات کے بعد تحریری معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے مطابق:

1۔ معاہدہ اسلام آباد کی شق 3 پر عمل ہوگا جبکہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ 20 دسمبر 2017 تک قوم کے سامنے لائی جائے گی۔

2۔ حکومت پنجاب مساجد پر لاؤڈ اسپیکر کی تعداد کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے گی، کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مطلوبہ قانون سازی 16 جنوری 2018 تک مکمل کرلی جائے گی۔

3۔ وفاقی حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے درمیان پہلے ہونے والے معاہدے کے تمام نکات پر جلد عملدرآمد کیا جائے گا۔

4۔ متحدہ علما بورڈ صوبے میں دینی شعائر کے حوالے سے نصاب تعلیم کا جائزہ لے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا: مظاہرین کی حمایت میں ملک بھر میں مظاہرے

ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کا کہنا تھا کہ حکومت کو معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی ہے، اس دوران اگر معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو دوبارہ سڑکوں پر نکلیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ وہ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے استعفے یا قانونی کارروائی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے، بلکہ ان کے استعفے اور آئین سے غداری کا معاملہ پیر حمیدالدین سیالوی کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔

قبل ازیں دھرنا مظاہرین کے وفد سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، صوبائی وزرا ضعیم قادری اور رانا مشہود اور پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل حکومتی وفد نے مذاکرات کیے۔

مزید پڑھیں: استعفےکا مطالبہ:زاہد حامد،رانا ثنااللہ کےکیس میں فرق ہے،ملک احمد خان

مال روڈ پر دھرنے کے آغاز سے ہی حکومت کی جانب سے دھرنا قائدین سے مذاکرات کی کوشش کی جاتی رہی اور ضعیم قادری نے متعدد بار مذاکرات کیے۔

حکومت کا موقف تھا کہ اسلام آباد میں تحریک لبیک یارسول اللہ کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی شقوں میں کہیں بھی رانا ثنا اللہ کے مستعفی ہونے کی بات نہیں تھی۔

تاہم دھرنے کے شرکا کا کہنا تھا کہ جب وزیر قانون زاہد حامد استعفیٰ دے سکتے ہیں تو رانا ثنا اللہ کیوں استعفیٰ نہیں دے سکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں