گوگل میپ -- فائل فوٹو
گوگل میپ -- فائل فوٹو

"کوئی نجی یا عوامی تنظیم، نجی ادارہ یا فرد، قومی یا بین الاقوامی، زمینی (مکانی یا فضائی) ڈیٹا، تصنیفی یا تجزیاتی کام اور سروے اور نقشہ بندی کی سرگرمیاں اختیار نہیں کر سکتیں جب تک ایسے کسی بھی مقصد کے لئے جو مقررہ حدود میں آتا ہو، وہ سروے آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہوں"-

" عملے کی اہلیت، اور اس کام کے حوالے سے قابلیت کی بھی، سروے آف پاکستان کی طرف سے مقررہ انداز میں تصدیق کی جاۓ گی"- اور رجسٹریشن سے پہلے، سروے آف پاکستان جیسا یہ مناسب سمجھے، ،متعلقہ ایجنسیوں سے ان فرموں، اداروں اور افراد سے متعلق منظوری حاصل کرے گا، جیسا یہ مناسب خیال کرے گا"-

"متعلقہ ایجنسیاں"، ایک اچھا اشارہ ہے-

20 مئی کو، صدر صاحب نے سروے آف پاکستان کے قوائد و ضوابط کے لئے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا- یہ بل 11، 13 اور 14 مارچ کو قومی اسمبلی کی طرف سے اٹھایا جانا تھا لیکن اسمبلی، وقت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی-

جس کے بعد 17 مارچ کو اسکی معیاد ختم ہو گئی- اس سے پہلے، کابینہ نے اس بل کو منظور کر لیا تھا، جسے اس وقت کے وزیر دفاع، سید نوید قمر کی طرف سے پیش کیا گیا تھا-

یقیناً، سروے آف پاکستان کو نۓ سرے سے ترتیب دینا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت تھی- اس کے کام کے معیار میں بہتری کی ضرورت ہے، اور امیجنگ اور ڈیجیٹل ڈیٹا/نقشوں کی تیاری اوربرقراری کے لئے جدید تکنیک کے استعمال کو بہتر بنانا ہو گا-

لیکن یہ آرڈیننس اس سے کچھ زیادہ ہی کر رہا ہے- ایسا لگتا ہے کہ ایجنسیاں ہر طرح کے ڈیٹا کے تجزیے اور تیاری پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں- یہ وہی بات ہو گئی کہ "توپ سے چیونٹی کا شکار" کیا جائے-

اگر آپ کے پاس، جی پی ایس ٹریکر والا سمارٹ فون ہے، جو وہ تمام راستہ ریکارڈ کر رہا ہے جے آپ ڈرائیونگ کے دوران اختیارکر رہے ہیں، تو اس آرڈیننس کی رو سے آپ قانون توڑ رہے ہیں کیونکہ آپ سروے آف پاکستان سے رجسٹرڈ نہیں ہیں-

اگر ایک پولیس افسر، واردات کی جاۓ وقوع کا خاکہ بنا رہا ہے تو وہ بھی، اسکی خلاف ورزی کر رہا ہے- اگر آپ اپنے محلے کا نقشہ بنانے کے لئے گوگل کراوڈ سورس میپ (google crowd- sourced map ) استعمال کر رہے ہیں تو بھی آپ قانون توڑ رہے ہیں- اگر آپ نے بادشاہی مسجد کی تصویر بنائی ہے اور اسے فلیکر (flicker) پر اپ لوڈ کیا ہے، تو اگر آپ کا کیمرے زمینی سمتیں بھی ٹیگ کر رہا ہے، تو آپ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں-

نقشہ سازی اورڈجٹایزیشن کے بارے میں سیکورٹی خدشات درست ہیں- ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارے دفاعی اور اسٹریٹجک اثاثے، نقشوں پر ظاہر ہوں اور غیر متعلقہ لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں- اس تشویش کے حوالے سے پاکستان منفرد نہیں ہے- تمام ممالک کے سیکورٹی خدشات یہی ہوتے ہیں، اور تمام ہی ایسے قوانین بناتے ہیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ سیکورٹی کی خلاف ورزی نہ ہو-

لیکن ان سب نے اس مقصد کے حصول کے لئے ایسے سخت گیر قانون نہیں بناۓ- بات پھر وہیں آتی ہے کہ آپ چیونٹی کے شکار کے لئے توپ استعمال نہیں کرینگے-

جب میں گھریلو سروے کرتا ہوں، خاص طور سے ایسے وقت جب مجھے طول بلد اور پینل کے اعداد و شمار جمع کرنے ہوتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ اس محلے کا جی پی ایس کے ذریعہ نقشہ بنا لوں تاکہ جب میں کچھ سالوں بعد یہاں دوبارہ آؤں تو بآسانی انہیں دوبارہ ڈھونڈ لوں- اس آرڈیننس نے اسے غیر قانونی بنا دیا ہے ( طالب علموں اور تحقیق کرنے والوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ محدود نقشے بنا سکیں، لیکن صرف پبلک سیکٹر اداروں کے طالب علم اور محقق)-

اب مجھے کوئی بھی سروے شروع کرنے سے پہلے، سروے آف پاکستان کے ساتھ رجسٹر ہونا پڑے گا اور انکی اجازت لینا پڑے گی اور ساتھ ہی ایجنسیوں کی بھی اجازت لینا ہو گی- اور وہ بھی اس بات کا اطمینان کریں گے کہ میں اس کام کے قابل ہوں- اگر یہ توپ سے شکار نہیں تو اور کیا ہے؟

کیا آپ نے کبھی کوئی اجازت نامہ یا لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ آپ کے دانت نکالے جانے سے بھی بدتر ہے- کیا سروے آف پاکستان، اس سے مختلف کوئی کام کرے گا؟ اور سب سے اھم یہ کہ اس طریقہ کار سے کیا حاصل ہوگا؟ کیا یہ ہمارے سیکورٹی خدشات کو کم کر دے گا؟

اس سے صرف اتنا ہوگا کہ شہریوں اور محققوں کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی اور ایسی انڈسٹریوں کے لئے مشکلات ہونگی، جو پاکستان کے بارے میں معلومات کو ڈیجیٹل کر کے کچھ منافع کمانا چاہتی ہیں-

اس آرڈیننس کے مطابق کسی قسم کی نقل تیار کرنا بھی غیر قانونی ہے- یہاں استعمال کی گئی وسیح البیانی پر غور فرمائیں-:"اس ایکٹ کے تحت، فراہم کئے گۓ کے علاوہ، نقل کا کوئی بھی عمل، ڈیجیٹل پرنٹنگ، کوئی جغرافیائی نقشہ یا تصویر یا سیٹلائٹ منظر کشی کی ممانعت کی جاۓ گی"- پھر سے توپ کا استعمال-

اس قانون کی خلاف ورزی کی سزا بھی شدید ہے- "وہ فرد، جواس ایکٹ کی دفعات کے خلاف، زمینی (فضائی/مکانی) ڈیٹا کی تصنیف، تجزیہ، سروے اور نقشہ سازی میں ملوث ہوگا، وہ ایک مدّت کے لئے قید کا اھل ہوگا جو بڑھ کر ایک سال ہو سکتی ہے اور ایک ملین روپے کا جرمانہ بھی عائد ہوگا"-

سنہ 2005 کے زلزلے کے بعد، اور پھر سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد، ہم نے سیٹلائٹ منظر کشی کے ذریعہ اور بعد میں جی پی ایس کے ذریعہ، ان علاقوں کی نقشہ سازی کے اقدامات کئے تھے جہاں تباہی آئی تھی- ہم نے بحالی اور تعمیرنو کی کوششوں کی نگرانی کو منظم کرنے کی کوشش کی- اب اگر ایسی صورت حال دوبارہ جنم لیتی ہے تو ہمیں یہ کام کرنے کے لئے اعلانیہ مجرم بننے کا خطرہ مول لینا پڑے گا-

ہم ہر ڈسٹرکٹ میں موجود پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کا نقشہ بنانا چاہتے ہیں- اس طرح دیگر معلومات کے ساتھ ہمیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ کہاں اسکولوں کی ضرورت زیادہ ہے اور کہاں پہلے سے موجود اسکولوں کی درستگی کی ضرورت ہے- یہ ہمیں غول کی شناخت میں مدد ملے گی، اور اسی غول کی بنیاد پر تربیت تشکیل دی جا سکے گی- لیکن ان سب کے لئے ہمیں سروے آف پاکستان سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہو گا-

حکومت نے آئین میں آرٹیکل 19(a ) کا اضافہ کیا ہے، تا کہ شہریوں کو اطلاعات حاصل کرنے کا حق مل سکے- اور ساتھ ہی انہوں نے یہ آرڈیننس بھی جاری کر دیا ہے- یہ دونوں ہم آہنگ نہیں ہو سکتے-

سیکورٹی خدشات پر کام ضرور کیا جاۓ لیکن ان خدشات کو آرڈیننس/قوانین کے بڑے مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے- ایسا ہوتے ہوۓ ہم نے دنیا میں کئی بار دیکھا ہے-

حکومت/اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کی طرف سے ایسے اقدامات سے، انسانی حقوق کے علمبرداروں کو چوکس رہنا چاہیے-

اس طرح کی قانون سازی کے لئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے- امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس آرڈیننس میں جس طرح کی خامیاں ہیں، نئی حکومت اسے پارلیمنٹ کی منظوری کے لئے پیش کرنے سے پہلے، مکمل طور پر دوبارہ لکھے گی-


مصنف، اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن، پاکستان، کے سینئر مشیر ہیں- لمس (LUMS) میں معاشیات کے اسوسیٹ پروفیسر ہیں- اور آئیڈیاز (IDEAS) لاہور کے وزٹنگ فیلو ہیں-

ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں