ذیابیطس کو لاعلاج مرض قرار دیا جاتا ہے جس کو کنٹرول میں تو رکھا جاسکتا ہے مگر اس سے مکمل نجات ناممکن سمجھی جاتی ہے۔

تاہم اب طبی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مرض کو غذا میں تبدیلی اور جسمانی وزن میں کمی لاکر ریورس کیا جاسکتا ہے۔

اسکاٹ لینڈ کی گلاسکو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی وزن میں مخصوص کمی درحقیقت ذیابیطس ٹائپ ٹو کا 'علاج' ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں : ذیابیطس ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 میں کیا فرق ہے؟

تحقیق کے مطابق جسمانی وزن میں پندرہ کلو گرام تک کمی لانا اس مرض سے مکمل نجات کا باعث بن سکتا ہے جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ ذیابیطس کے مریض اپنے جسمانی وزن میں کمی لاکر بھی اس کی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ وہ اس مرض کو ریورس کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کو ریورس کرنے کی صلاحیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی زندگیوں میں انقلاب لاسکتی ہے اور شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

تحقیق کے مطابق جسمانی وزن میں کمی لانا جگر اور لبلبے کے اندر چربی کی سطح کم کرتا ہے جس سے ان اعضاءکے لیے معمول کے افعال جاری رکھنا ممکن ہوجاتا ہے، درحقیقت جسمانی وزن میں نمایاں کمی اس مرض سے نجات دلا سکتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران د میں سے نو افراد جنھوں نے اپنا وزن پندرہ کلوگرام یا اس سے زائد کم کیا، نے ذیابیطس ٹائپ ٹو کو ریورس کردیا۔

اس تحقیق کے دوران تین سو کے قریب افراد کو رضاکار کے طور پر لیا گیا جو گزشتہ چھ سال سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار تھے۔

یہ بھی پڑھیں : ذیابیطس کی ایک اور قسم دریافت

ان میں سے پچاس فیصد مریضوں کو بہت کم کیلوریز والی غذا کا استعمال کرایا گیا جبکہ دوسرا گروپ کنٹرول غذا استعمال کرتا رہا۔

پہلے گروپ کو تین سے پانچ ماہ تک 825 سے 853 کیلوریز کا روزانہ استعمال کرایا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ اگر مریض برسوں سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہی کیوں نہ ہو، غذائی عادت میں تبدیلی اور وزن کم کرکے اسے ریورس کیا جاسکتا ہے۔

اس تجربے میں شامل 65 سالہ خاتون ازابیل مرے نے دو سال کے دوران 22 کلو وزن کم کیا اور اب انہیں ادویات کے استعمال کی مزید ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے تحقیق سے دو سے تین سال قبل ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض لاحق ہوا تھا، مجھے روزانہ متعدد ادویات کا استعمال کرنا پڑتی تھی مگر پھر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بیمار ہوتی جارہی تھی'۔

انہوں نے مزید بتایا 'مگر اس تجربے میں کم غذائی مقدار سے جسمانی وزن میں نمایاں کمی لانے کے بعد جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ میرا لبلبہ پھر سے کام کرنے لگا ہے تو مجھے بہت اچھا محسوس ہوا، اب میں خود کو ذیابیطس کا مریض نہیں سمجھتی'۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں