نیو یارک: امریکی جریدے ’ ٹائمز میگزین‘ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’می ٹو (MeToo#)‘ یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ٹرینڈ کا آغاز کرنے والے افراد کو سال کے با اثر لوگوں میں شامل کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے ایک پروگرام میں کیا گیا جبکہ اسی پروگرام کے میزبان کو تقریباً 2 ہفتے قبل ہی جنسی ہراساں کرنے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

— فوٹو، ڈان اخبار
— فوٹو، ڈان اخبار

امریکی جریدے کے مطابق یہ کہانی ان مردوں اور خواتین پر ہے جنہوں نے بولنے کی ہمت کی جس میں اس ٹرینڈ کا آغاز کرنے والی سماجی کارکن ترانہ برکے بھی شامل ہیں۔

مذکورہ ٹرینڈ کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ہولی وڈ فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف تقریباً 18 اداکاراؤں و خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا، جب کہ 5 اداکاراؤں نے ان پر ’ریپ‘ کے الزامات بھی لگائے تھے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ (Me Too) نامی مہم کا دوبارہ پرزور آغاز ہوگیا تھا۔

ہاروی وائنسٹن کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ جیسے سنگین الزامات لگانے والی اداکاراؤں، ماڈلز، گلوکاراؤں، فیشن ڈیزائنرز اور صحافیوں میں انجلینا جولی، ایشلے جڈ، جیسیکا بارتھ، کیتھرین کنڈیل، گوینتھ پالٹرو، ہیدر گراہم، روسانا آرکوئٹے، امبرا بٹیلانا، زوئے بروک، ایما دی کانس، کارا دیلوگنے، لوشیا ایونز، رومولا گرائے، ایلزبتھ ویسٹوڈ، جوڈتھ گودریچے، ڈان ڈیننگ، جیسیکا ہائنز، روز میکگوان، ٹومی این رابرٹس، لیا سینڈوئکس، لورین سوین اور مرا سرینو شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ہولی وڈ پروڈیوسر پر اداکاراؤں کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام

اسی حوالے سے امریکی اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ (MeToo#) یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ایک ٹرینڈ کا آغاز کیا۔

جزیدے کے ایڈیٹر ان چیف نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مہم بہت تیزی کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پھیلی جس سے ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشرے کی سیکڑوں خواتین نے ٹرینڈ کے ذریعے ہمت کرتے ہوئے اپنے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے والے واقعات کو بیان کیا جبکہ اس ٹرینڈ میں کچھ مردوں نے بھی اپنے خلاف ہونے والے ان واقعات کو بیان کیا۔

اس ٹرینڈ کے بعد امریکا میں سیاست، میڈیا اور فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیات کے خلاف الزامات سامنے آئے جس کے بعد کئی افراد کو ان کے اداروں سے فارغ کردیا گیا اور ان کے خلاف تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی ہراسگی اسکینڈل: ہاروی وائنسٹن کی ’آسکر‘ رکنیت معطل

اس ٹرینڈ کا آغاز کرنے والے سماجی کارکن ترانہ برکے نے این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میں تصور نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی چیز دنیا کو ہی تبدیل کر سکتی ہے، میں تو صرف اپنی برادری کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی تھی‘۔

انہوں نے مزید کہا ’ ابھی تو یہ آغاز ہے، یہ ایک لمحہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے اور اب ہی تو حقیقت میں کام کا آغاز ہوا ہے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس ٹائمز میگزین کی سب سے با اثر شخصیت بننے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال می ٹو ٹرینڈ کا آغاز کرنے والوں کے بعد دوسرے نمبر پر رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں