امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد سے یہ شہر ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے جذبات ابھارنے کا باعث بن گیا۔

یہاں ہم آپ کو اس تقسیم شدہ شہر کے بارے میں 5 چیزوں سے آگاہ کریں گے۔

موجودہ حیثیت

1967 میں جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے مشرقی بیت المقدس پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا جس پر بعد میں قبضہ کرلیا گیا، اس عمل کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا لیکن اسرائیل نے اس شہر کو اپنا غیر منقسم دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کے فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید

امریکا کے علاوہ کسی بھی ملک نے اسرائیل کی سالمیت کو تسلیم نہیں کیا اور اپنے سفارتخانے تجارتی دارالحکومت تل ابیب میں ہی قائم رکھے جبکہ فلسطینی بیت المقدس کو اپنے مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

خیال رہے کہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ اسلام، یہودیت اور عسائیت کے کچھ مذہبی مقامات پر مشتمل ہے۔

مقدس شہر میں آبادی کی تقسیم

مرکزی محکمہ شماریات کے مطابق بیت المقدس کی آبادی کو نہ صرف اسرائیلی یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بلکہ یہودیوں کی آبادی میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ شہر کے ایک تہائی 5 لاکھ 42 ہزار بالغ یہودی خود کو الٹرا آرتھوڈکس کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ الٹرا آرتھوڈکس بیت المقدس میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا طبقہ ہے، جس کے دو تہائی سے زیادہ تعداد میں ایلمنٹری اسکول بیت المقدس میں قائم ہیں۔

بیت المقدس میں فلسطینیوں نے اسرائیلی خدمات اور رہائش گاہیں حاصل کررکھی ہیں جبکہ زیادہ تر فلسطینی بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیتے اور پارلیمانی انتخابات میں بھی ووٹ نہیں ڈالتے۔

بیت المقدس میں زندگی

مذہبی مقامات، ادارے اور لوگوں کے ساتھ ساتھ بیت المقدس میں اسرائیل کی اعلیٰ تعلیم کی سہولت موجود ہے، اس شہر میں عبرانی یونیورسٹی موجود ہے جس کے بانیوں میں البرٹ آئنسٹائن اور سگمنڈ فرایڈ بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

دی بیزالیل اکیڈمی آف آرٹس اینڈ ڈیزائن، سیم اسپیجیل فلم اینڈ ٹیلی وژن اسکول اور نسان نیٹو ایکٹنگ اسٹوڈیو وہ ادارے ہیں جواسرائیل کے بہترین فنکار ڈھونڈتے ہیں۔

ان کے علاوہ فلسطین کا قومی تھیٹر بیت المقدس میں غیر معمولی فلسطینی ادارہ ہے جبکہ اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینی انتظامیہ کو اسے چلانے کی اجازت نہیں ہے۔

سیاحتی دارالحکومت

محکمہ شماریات کے مطابق 2016 میں اسرائیل میں داخل ہونے والے تیس لاکھ سیاحوں میں سے 78 فیصد نے بیت المقدس کا دورہ کیا تھا۔

سب سے زیادہ مشہور جگہ مسیحی مقدس مقامات کنیسۃ القیامہ (Church of the Holy Sepulchre ) اور طریق الالام (Via Dolorosa) کے ساتھ مغربی دیوار تھی جبکہ یہ تمام دیوار پرانے شہر میں واقع ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر معروف سیاحتی مقامات میں ہولوکاسٹ کی یاد واشیم اور اسرائیلی میوزیم بھی ہے، جس میں تقریباً 5 لاکھ نایاب، آرٹ اور آثار قدیمہ اور جدید اشیاء شامل ہیں، جس میں 2 ہزار سال قدیم بحیرہ مردار کے سکرال اور بائبل ( انجیل) کے ابتدائی صحیفے بھی موجود ہیں۔

اس کے علاوہ مسلمان زائرین اسلام کی تیسری مقدس جگہ الاقصیٰ مسجد آتے ہیں، جسے یہودیوں کی مقدس جگہ ( ٹیمپل ماؤنٹ) کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

بیت المقدس کی علامت

بیت المقدس کے کے فار شاؤل مینٹل ہیلتھ سینٹر کے ماہر نفسیات ڈاکٹر گرگوری کٹز کا ماننا ہے کہ بیت المقدس دنیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے، جس کا نام سن کر نفساتی حالت طاری ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا کہ غیر معمولی حالت سیاحوں پراثر انداز کرتی ہے جب وہ اسلام، عسائیت اور یہودیت کے مقدس مقامات دیکھنے آتے ہیں اور اچانک اپنے آپ کو ان چیزوں میں ملوث کرلیتے ہیں۔

ان پانچ چیزوں کے علاوہ دیوار گریہ یا دیوار براق جسے انگریزی میں ویسٹرن وال بھی کہا جاتا ہے، بیت المقدس (یروشلم) میں واقع ہے، یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو تین بڑے مذاہب کے لوگوں کے لیے انتہائی مقدس ہے، جب کہ ساتھ ہی اس شہر کی تاریخ بھی متنازع رہی ہے۔

مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی وجہ سے اس شہر کو مقدس مانتے ہیں، جب کہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ دیوار گریہ ہیکل سلیمانی کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ شہر مقدس ہے۔

یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے، جس کی وجہ سے یہ ان کے لیے بھی مقدس شہر ہے۔

دیوار گریہ کو یہودی ہیکل سلیمانی کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہاں آکر عبادات کرتے ہیں، وہ اس دیوار کو ہاتھوں سے چھونے کے بعد کچھ دیر تک خاموشی سے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔

یہودیوں کے عقیدے کے مطابق ہزاروں سال سے ان کے آباؤ اجداد یہاں آکر عبادات کرنے سمیت غمزدہ ہوا کرتے تھے، جس کی وجہ سے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ خاندان کا 'دیوار گریہ' کا دورہ

دوسری جانب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شب معراج پر جاتے وقت ان کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا براق اس دیوار پر آکر رکا تھا، جس کی وجہ سے اسے 'دیوار براق' بھی کہا جاتا ہے۔

جس طرح اسرائیل اور فلسطین کی جغرافیائی حدود متنازع ہیں، اسی طرح اس مقدس عبادت گاہ پر بھی دونوں کے درمیان تنازع ہے، تاہم حالیہ امریکی انتظامیہ اس دیوار کو مکمل طور پر اسرائیل کا حصہ نہیں مانتی۔

تبصرے (0) بند ہیں