اسرائیل میں موجود عربوں کا بائیکاٹ کیاجائے، اسرائیلی وزیردفاع

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2017
فلسطین بھر میں امریکی فیصلے کے خلاف احتجاج اور اسرائیلی فورسز سے جھڑپیں جاری ہیں—فوٹو:اے ایف پی
فلسطین بھر میں امریکی فیصلے کے خلاف احتجاج اور اسرائیلی فورسز سے جھڑپیں جاری ہیں—فوٹو:اے ایف پی

اسرائیل کے وزیردفاع اویگدور لیبرمین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع فیصلے کے خلاف اسرائیلی علاقوں میں احتجاج کرنے والے عربوں کے کاروبارسمیت مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کردیا۔

اسرائیل کی قوم پرست جماعت یسرائیل بیتینو کے سربراہ اور موجودہ وزیر دفاع اویگدور لیبرمین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے شمال میں واقع وادی عارہ ہمارا حصہ نہیں اور اسرائیل کے یہودیوں کو ان علاقوں میں نہیں جانا چاہیے اور ان کی مصنوعات بھی نہیں خریدنی چاہیے۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے شمالی علاقے سے متصل ہائی وے میں سیکڑوں عربوں نے احتجاج کیا جہاں درجنوں نقاب پوش افراد نے کاروباری علاقوں اور پولیس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیں اور پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں تین اسرائیلی زخمی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا۔

اسرائیلی وزیردفاع نے کہا کہ 'یہ افراد اسرائیل سے تعلق نہیں رکھتے، ان کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں تمام اسرائیلی شہریوں سے کہوں گا کہ وہ ان کے دکانوں میں جانا بند کریں، خریداری اور خدمات حاصل کرنا بند کریں جس کا سیدھا مطلب ہے کہ وادی عارہ کا بائیکاٹ کریں تاکہ انھیں احساس ہو کہ یہاں انھیں اچھا نہیں سمجھا جاتا'۔

خیال رہے کہ اویگدور لیبرمین بڑے عرصے سے وادی عارہ کو اپنے اراضی اور آبادی کے حوالے سے فلسطین کے ساتھ امن معاہدے کے مجوزہ منصوبے میں شامل کر رکھا تھا جو اسرائیل میں موجود عرب اقلیت کا علاقہ ہے جہاں پر فلسطینیوں کے ساتھ کھلے عام ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد فلسطین بھر میں احتجاجی کا سلسلہ جاری ہے۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں ان کے جن علاقوں میں قبضہ کیا تھا اس کو مستقبل میں اپنی ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے۔

دوسری جانب عالمی برادری سمیت مسلمان ممالک میں بھی امریکا کے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور رہنماؤں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں