اسلام آباد: پاکستان سے سیاسی پناہ کے لیے مشرقی یورپ کے مختلف حصوں اور ملازمت کے حصول کے لیے مشرقی بحیرہ روم کے راستوں سے وسطی یورپ جانے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی تعداد میں 2016 سے اضافہ ہورہا ہے۔

ان افراد میں سے اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے بھی لوگ شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی ایم او) کی جانب سے پاکستانی تارکین وطن کی ایک پروفائل جاری کی گئی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ 2016 میں 72 فیصد پنجاب سے آئے ہوئے پاکستانی تارکین وطن نے اٹلی میں انٹرویو دیا جبکہ 2017 میں یہ تعداد 76 فیصد تھی، جس میں کچھ تعداد فاٹا، خیبر پختونخوا، پشاور اور دیگر علاقوں کے لوگوں کی بھی شامل ہے۔

مشرقی بحیرہ روم کے راستے سے یورپ آنے والے پاکستانیوں میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہیں، جن کی تعداد 2016 میں 54 فیصد تھی جو 2017 میں 63 فیصد ہوگئی، اس کے علاوہ تقریباً ایک چوتھائی حصہ خیبر پختونخوا سے (23 سے 24 فیصد) ہے جبکہ باقی بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ترک پولیس نے 57 پاکستانی تارکین وطن کو بازیاب کرادیا

آئی او ایم کے ڈسپلیسمنٹ ٹریکنگ میٹرکس ( ڈی ٹی ایم) کے اعداد و شمار کے مطابق مشرقی بحیرہ روم کے راستے 2016 میں 1253 پاکستانی شہریوں نے انٹرویو دیئے جبکہ باقی تارکین وطن نے اٹلی میں انٹرویو دیئے۔

پروفائل کے مطابق 2017 میں اب تک1328 پاکستانی شہریوں نے انٹرویو دیا جس میں 71 فیصد نے بلغاریا، یونان، ہنگری، کوسوو، مونٹینیگرو، رومانیہ،سربیہ اور یوگوسلاویہ میں جبکہ 29 فیصد نے اٹلی میں انٹرویو دیا۔

مرکزی بحیرہ روم کے راستے سے آنے والے تارکین وطن سے انٹرویو کے درمیان ملک چھوڑنے کی وجہ معلوم کی گئی، جس میں 90 فیصد نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے جان کو لاحق خطرے اور تشدد کے باعث، 12 فیصد نے جنگ یا تنازعات کے باعث جبکہ 11 فیصد نے معاشی وجوہات کی وجہ سے پاکستان کو چھوڑا۔

یہ بھی پڑھیں: بحیرہ روم: 200 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک

مشرقی بحیرہ روم کے راستے آنے والے 53 فیصد شہریوں نے جواب دیا کہ انہوں نے معاشی وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑا جبکہ 32 فیصد نے تشدد یا ظلم و ستم کے خوف اور 26 فیصد نے ملک میں جاری جنگ اور تنازعات کے باعث وطن کو چھوڑ دیا۔

عارضی منتقلی

2016 اور2017 میں مرکزی بحیرہ روم کے راستے آنے والے پناہ گزینوں نے ثانوی منتقلی اختیار کی، انہوں نے اپنے سفر کےآغاز میں پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں ایک سال یا اس سے زائد وقت گزارا تاہم مشرقی بحیرہ روم کے راستے سے آنے والے پاکستانیوں کی کم تعداد نے ثانوی منتقلی اختیار کی لیکن 2 سال میں ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

در حقیقت میں ان تارکین وطن نے اپنا سفر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے ایک سال یا اس سے زائد کا عرصہ جرمنی، لیبیا، ترکی، یونان اور آسٹریا میں گزارا۔

مرکزی یورپی ممالک میں اپنی جگہ بنانے میں ناکامی کے بعد ان تارکین وطن نے اٹلی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور وہاں سیاسی پناہ لینے کے لیے کوشش کیں، 61 فیصد تارکین وطن نے روانگی والے ممالک میں ایک سے دو سال کا وقت گزار جبکہ باقی نے دو سے تین سال یا اس سے زائد عرصہ وہاں گزارا۔


یہ رپورٹ 11 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں