بغداد: عراق نے حال ہی میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف اپنی ممکنہ فتح کا اعلان کردیا ہے لیکن بغداد کی یہ فتح اس وقت تک کمزور اور غیر موثر رہے گی جب تک داعش کی نرسیوں کے اسباب کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔

واضح رہے کہ داعش نے 2014 میں عراق کے تین چوتھائی حصے پر قدم جمائے تھے جس کے خاتمے کے لیے بغداد کو واشنگٹن کی مدد سے کئی برسوں کی خونریز لڑائی لڑنا پڑی۔

بغداد کی داعش کے خلاف ممکنہ فتح کا دارومدار جنگی ساز و سامان پر تھا جو زیادہ دیر تک دہشت گروں کو واپس آنے سے نہیں روک سکے گے۔

پیرس کے ادارے انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹراٹیجک افیئرز میں علاقائی ماہر کریم بیتر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘داعش کی نرسری کے خلاف کارروائی کی اشد ضرورت ہے‘۔

یہ پڑھیں: داعش کو عراق میں آخری قصبے میں بھی شکست

انہوں نے کہا کہ ‘داعش کے دہشت گروں کو جنگی محاذ پر جزوقتی شکست کا سامنا ہے لیکن جہاں ان کی آبپاری ہورہی ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عراقی حکام اہم نوعیت کے دیگر چینلجز کو نظر کررہی ہے۔

کریم بیترنے واضح کیا کہ عراقی حکام کو مرکزی انتظامیہ کی طاقت کو مستحکم کرنے کے ساتھ پالیسی کی تشکیل میں کمزور برداریوں کو ہر گز نظر انداز نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: عراقی فوج نے موصل ایئرپورٹ کا قبضہ ’داعش سے چھڑالیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بہت ضروری ہے کہ سماجی اوراقتصادی تعمیرنو میں درپیش مسائل کو سمجھ داری سے حل کریں اور کرپشن کے خلاف موثر اقدامات سمیت تیل کے فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو منصفانہ انداز میں تقسیم کی جائے’۔

واضح رہے کہ آئندہ ماہ کویت میں عراق کی تعمیرنو کے لیے 1 کھرب ڈالر کا بل پیش کیاجائےگا۔

فرقوں کے اختلافات دور کرنے کی ضرورت

جینوا گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر محمد الدمحمدیو نے خبر دار کیا کہ عراق میں داعش کی شکست دراصل پسپائی کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘داعش کا وجود ماضی کا باب نہیں بنے گا اور وہ (داعش) مختلف تنازعات اور جنگیں کئی برسوں تک جاری رکھیں گے جس کے سدباب کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے’۔

مزید پڑھیں: داعش کے خلاف مغربی موصل میں بھی آپریشن شروع

دہشت گردوں کو دوبارہ قدم جمانے سے روکنے کے لیے عراق کی سنی کمیونٹی کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات دور کرنا ہوں گے جو دراصل داعش کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ انفراسٹکچر کی طرح سماجی طبقوں کی بھی تعمیرنو ہونی چاہیے۔

غیر مسلح ملیشیا

اب جبکہ ساری توجہ داعش کے خاتمے پر مرکوز ہے تو دوسری جانب خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ داعش کو شکست دینے میں مرکزی کردارادا کرنے والی مقامی ملیشیا تنظیم حزب الصحابی مستقبل میں اپنا اثر ورسوخ برقرار رکھنا چاہے گی۔

عراقی وزیراعظم حید العابدی کی قیادت میں کام کرنے والی حزب الصحابی کو ایران کی معاونت حاصل ہے۔

حزب الصحابی نے داعش کے خلاف صف اول میں رہ کر جنگ لڑی لیکن ساتھ ہی بعض دفعہ اپنے ہی سنی گروپ کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی کر ڈالی تھیں۔

تاہم مرکزی حکومت کے لیے ملیشیا تنظیم میں شامل تقریباً 60 ہزار سے 1 لاکھ 40 ہزار جنگجوؤں کو سنبھالنا ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔

اس حوالے سے پڑھیں: عراق: بم حملوں میں 13 افراد ہلاک

عراقی جریدے ‘انسائیڈ عراقی پولیٹکس’ کے مدیر کریک سنویل کہتے ہیں کہ عراق حکام کو سیکیورٹی کا بڑا خدشہ ‘داخلی محاذ’ پر ہے کیوں ملیشیا تنظیم اپنے مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے مافیا کو روپ دھار چکی ہے اور غیر قانونی چیک پوسٹ اورٹول ٹیکس قائم کرکے وصولیاں کررہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عراق میں داعش کی موجودگی پوری دنیا کے لیے توجہ طلب مرحلہ تھا لیکن ‘لوکل گینگ’ کو اپنی بقاء کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو عراقی حکام کے لیے مشکل ہے۔


یہ خبر 11 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں