خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر می ٹو (Me Too) ’میں بھی‘ کے نام سے ٹرینڈ شروع کرنے والوں کی توپوں کا رخ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب ہوگیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر گزشتہ برس صدارتی انتخابات کے دوران خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے تاہم اب حالیہ الزامات کے بعد متعدد نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے کی تحقیقات کریں جبکہ ڈیموکریٹک جماعت کے قانون سازوں کی جانب سے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی) کی رپورٹ کے مطابق جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف جاری مہم نے وائٹ ہاؤس کو بھی اس ناپسندیدہ گفتگو کے خلاف سامنے آنے پر مجبور کردیا ہے، پریس سیکریٹری سارہ ہکابی سینڈرز نے گزشتہ روز صحافیوں سے ہونے والے بات چیت میں امریکی صدر پر لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر کیے گئے دعووں کا فیصلہ انتخابات والے دن پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں پہلے ہی آچکا تھا۔

مزید پڑھیں: ’می ٹو‘: جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی مہم نے دنیا کو ہلا دیا

اس حوالے سے سابق ملکہ حسن سامانتھا ہولوی نے دعویٰ کیا کہ 2006 میں مس امریکا کے مقابلہ حسن کے دوران ٹرمپ نے انہیں اور دیگر لڑکیوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہم عام شہری ہیں اور ہمارے لیے خود کو وہاں سے نکالنا اور امریکا کو یہ دکھانا کہ وہ کیسے آدمی ہیں اور خواتین کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں کرنا آسان نہیں جبکہ ان کی جانب سے یہ کہنا کہ ہمیں کوئی فکر نہیں تکلیف دیتا ہے۔

سامانتھا ہولوی ان چار خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ روز ٹرمپ کے خلاف الزامات لگائے۔

انہوں ںے گذشتہ روز این بی سی کو انٹرویو اور ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ، ریچل کروک نے الزام لگایا تھا کہ 2006 معروف کاروباری شخصیت نے ان کی رضامندی کے بغیر ان کو بوسہ دیا تھا اور ساتھ ہی کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ ’پارٹی کی وابستگیوں کو ایک طرف رکھے اور ٹرمپ کی جنسی بدعنوانی کی تاریخ کی تحقیقات کرے‘۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ سین فرانکین کی تحقیقات کے لیے تیار تھے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی یہی اقدام ہونا چاہیے۔

سین فرانکین مینیسوٹا، جو ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر ہیں، انہوں نے گزشتہ ہفتے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام پر استعفے کا اعلان کیا تھا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کیپیٹل ہل تحقیقات کا امکان نہیں۔

سینیٹ اور اخلاقی کمیٹی کا ایوان کانگریس کے ارکان کے خلاف تحقیقات کرسکتا ہے لیکن صدور کے خلاف نہیں جبکہ ریپبلکن کی کمیٹیاں ٹرمپ کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی تحقیقات اس وقت تک نہیں کرسکتیں جب تک ان کا روس کے خلاف جاری تحقیقات سے کوئی تعلق نہ ثابت ہو۔

ہولی وڈ ٹیپ

گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہولی وڈ ٹیپ کے منظر عام پر آنے کے بعد 16 خواتین نے ان پر الزامات لگائے تھے، خیال رہے کہ اس ٹیپ میں ٹرمپ کو خواتین سے نازیباً انداز میں بات کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’می ٹو‘ ٹرینڈ کا آغاز کرنے والی خواتین سال کی بہترین شخصیت قرار

ٹرمپ کے خلاف الزامات لگانے والی ایک اور خاتون جیسیکا لیڈز نے گزشتہ روز نیوز کانفرنس میں کہا کہ جب 1970 میں وہ ٹرمپ کے ساتھ جہاز میں بیٹھی ہوئی تھی تو انہوں نے ان کے ساتھ نازیبا حرکات کی اور یہ سب اتنا جلدی تھا اور خاموشی سے تھا کہ کسی نے انہیں کچھ بھی نہیں کہا تھا تاہم ٹرمپ کی جانب سے ان الزامات کو پہلے بھی مسترد کیا گیا تھا اور گزشتہ روز امریکی پریس سیکریٹری نے بھی اس سے انکار کیا۔

سیکریٹری پریس نے کہا کہ جیسا کہ صدر نے خود بتایا کہ یہ اچھی بات ہے کہ خواتین آگے آرہی ہیں لیکن صرف الزامات سے اس بات کا تعین نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ امریکی عوام نے اس حقیقت کو جان لیا اور ان کے حق میں ووٹ دیا اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس معاملے میں آگے بڑھانے کو تیار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں