روسی صدر ولادی میر پیوٹن پہلی مرتبہ ترکی کے دورے کے لیے انقرہ پہنچے جہاں انہوں نے جزوی طور پر شام کے جنگ زدہ علاقوں سے اپنی فوج کو واپس بلانے کا اعلان کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر نے اپنے دورے کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے صدارتی کمپلیکس میں بند کمرے میں ملاقات کی۔

خیال رہے کہ یہ صدر پیوٹن اور رجب طیب اردوگان کے درمیان آٹھویں ملاقات تھی۔

ایک روز قبل صدر پیوٹن کے اچانک دورہ شام پر روسی ایئربیس پر شامی صدر بشار الاسد کی جانب سے ان کا استقبال کیا گیا تھا جہاں روسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے وزیر دفاع کو فوج کی جزوی واپسی کا آغاز کرنے کی ہدایت کر دی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ شام میں موجود روسی فوج کا بڑا حصہ واپس روس جائے گا۔

خیال رہے کہ 2015 میں روس نے پہلی مرتبہ شامی جنگ میں حصہ لیا تھا جس میں انہوں نے شامی صدر کی حمایت کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملے کیے تھے۔

مزید پڑھیں: شام کی جنگ : تنازع الجھتا جا رہا ہے

روسی صدر کا کہنا تھا کہ ہماری فوج نے شامی فوج کو بین الاقوامی دہشت گردوں کو شکست دینے میں مدد فراہم کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ کام مکمل کرلیا گیا ہے جو بہت ہی عقلمندی سے مکمل کیا گیا۔

بشارالاسد کا رد عمل

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بشار الاسد نے روس کی جانب سے ان کے ملک میں جاری تنازع پر کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شام کی عوام روسی فوج کی خدمات کو کبھی نہیں بھولے گی۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ شام میں سیاسی استحکام کے لیے وہ مصر اور ترکی سے بات کرکے بشار الاسد کو تفصیلات دیں گے۔

روس کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق 23 روسی طیارے، 2 ہیلی کاپٹر اور ملٹری پولیس بہت جلد روس واپس آجائیں گی۔

واضح رہے کہ روس کا پہلا طیارہ پیر کے روز روانہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'شامی جنگ امریکہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ'

پینٹاگون نے روسی صدر کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اعلان سے ہمارے اقدامات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا تھا کہ روس کا اپنی فوج واپس بلانے کے فیصلے سے امریکا کی شام کے لیے ترجیحات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

شام کی جنگ میں کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سنہ 1970 سے شام پر اسد خاندان کی حکومت ہے، ان کا تعلق ایک اہل تشیع اسلامی فرقہ سے ہے جو خود کو علوی کہتے ہیں۔

وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح یہ ملک بھی جنگ عظیم کے بعد یورپین طاقتوں کے ہاتھوں میں جانے کے بعد سلطنت عثمانیہ سے الگ ہوگیا تھا۔

مغربی طاقتوں کی جانب سے وضح کردہ نئی سرحدیں، فرقہ ورانہ اور قبائلی حدود کے درمیان میں سے گزر گئی تھیں، جنہوں نے ان ممالک میں طاقت کی جدو جہد کو بڑی حد تک پیچیدہ بنا دیا تھا۔

واضح رہے کہ شام میں مارچ 2001 کے بعد تنازع پیدا ہوا تھا اور حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج رفتہ رفتہ خونریز اور خانہ جنگی میں بدل گیا تھا۔

مزید پڑھیں: فرانس کی شام میں داعش کے گڑھ پر فضائی کارروائی

تاہم موجودہ شامی حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز 2011 سے ہوا تھا، ابتداء میں اسے عرب انقلاب کی ایک لہر میں شامل کیا جارہا تھا جس کے نتیجے میں بہت سے ممالک کی حکومتیں تبدیل ہوئی تھیں۔

شامی صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ 2012 اور 2013 شام کے لیے سب سے مشکل ترین دور تھا۔

خیال رہے کہ اس ہی دور میں میڈیا رپورٹس میں حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ڈھائی سال سے جاری شام کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کے درمیان ایک وسیع خلیج کو جنم دیا کیونکہ ترکی اور خلیجی ممالک سنی باغیوں کی پشت پر آئے گئے تھے جبکہ ایران اور لبنان میں موجود جماعت حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ عملی طور پر اس جنگ میں شریک تھے۔

شام اور عراق میں وسیع رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کرکے جون 2014 میں خود ساختہ 'دولۃاسلامیۃ' کے قیام اور ابوبکر البغدادی کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

جس کے بعد 2014 میں ہی امریکا کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا فیصلہ فرانس میں ہونے والے عالمی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد کیا گیا جس میں امریکا، چین اور روس سمیت 30 سے زائد ملکوں اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، روسی صدر

اسی دوران امریکا اور مغربی ممالک نے پہلے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے باغیوں کی مدد کی اور بعد ازاں داعش کے شام اور عراق کے وسیع حصے پر قبضے کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا۔

اجلاس کے دوران سعودی عرب اور ایران نے بھی شام کے معاملے پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں شرکت کا اعلان کیا۔

بعد ازاں 2015 میں روس نے بھی شام کی جنگ میں مداخلت کرتے ہوئے فضائی کارروائی میں حصہ لینا شروع کردیا۔

یہ فضائی کارروائیاں بشار الاسد کے مخالف جماعتوں کے علاقوں میں کی جارہی تھیں جہاں داعش کا کوئی وجود نہیں تھا۔

نومبر 2015 میں روس کے طیارے نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جس پر ترکی نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے طیارے کو مار گرایا تھا۔

بعد ازاں روس نے الزام لگایا تھا کہ ترکی کی جانب سے اس کے فوجی طیارے کو مارگرانے کا واقعہ بظاہر باقاعدہ منصوبہ مندی کا حصہ لگتا ہے جس کا مقصد اشتعال دلانا ہے تاہم دونوں ممالک میں جنگ نہیں چھڑنے جارہی۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کو روزانہ لاکھوں ڈالرز کی آمدنی

14 نومبر 2015 کو پیرس میں ہونے والے حملوں میں 129 افراد ہلاک اور 350 سے زئد زخمی ہوئے تھے جبکہ ان حملوں کی ذمہ داری شام اور عراق کی شدت پسند تنظیم 'داعش' نے قبول کی تھی۔

تاہم پیرس میں ہونے والے ان حملوں کے بعد فرانس نے بھی شام میں خود ساختہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے گڑھ رقہ پر بڑے پیمانے پر فضائی کارروائی کا آغاز کیا۔

امریکا کی جانب سے شام میں باغی گروپس کی حمایت جاری تھی جنہیں وہ معتدل کہہ رہا تھا جب کہ روس شامی صدر بشار الاسد کا حامی تھا تاہم ستمبر 2016 میں سوئزر لینڈ کے شہر جنیوا میں شام میں جنگ بندی سے متعلق کامیاب مذاکرات ہوئے جس میں دونوں ممالک کے درمیان شام میں جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق ہوگیا۔

مزید پڑھیں: عراقی وزیراعظم کا داعش کوشکست دینے کا اعلان

بالآخر گزشتہ ماہ روس، ترکی اور ایران، شام کے سیاسی حل کے لیے متحد ہوئے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ترک اور ایرانی ہم منصب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام میں عسکریت پسندوں کو فیصلہ کن دھچکا ملا ہے اور یہی حقیقی موقع ہے کہ کئی سالوں سے جاری جنگ کو ختم کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے عراقی فورسز کی جانب سے داعش کے خلاف 3 سالہ جنگ کے بعد فتح کی نوید سناتے ہوئے ملک سے دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں