پولیس نے مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے طالب علم کے اغوا کا مقدمہ درج کردیا۔

ڈان کو لاپتہ طالب علم کے اہل خانہ نے بتایا کہ پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف گمشدگی کا مقدمہ درج کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صغیر احمد بلوچ 20 نومبر کو لاپتہ ہوگئے تھے تاہم ان کی بہن حمیدہ بلوچ کی شکایت پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 اور 365 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔

لاپتہ طالب علم کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے۔

حمیدہ بلوچ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 'وہ 20 نومبر کو امتحان کے لیے یونیورسٹی گئے تھے اور پرچے کے بعد وہ ویژل اسٹڈیز شعبے کے پاس چائے پی رہے تھے کہ ایک کار اور دو موٹر سائیکل میں سوار کئی افراد آئے اور انھیں گھیر لیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائیوں کے دوستوں نے بتایا کہ 'ان میں سے دو افراد نے میرے بھائی کو اٹھا لیا'۔

حمیدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ 'وہ افراد چند لمحے بعد واپس آئے اور میرے بھائی کے بیگ کو بھی اٹھا کر لے گئے'۔

کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر طالب علم کے لاپتہ ہونے کے بعد اہل خانہ نے مبینہ ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانے کی کوشش کی جبکہ پولیس ابتدائی طور پر مقدمہ درج کرانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی تاہم 7 دسمبر کو مقدمہ درج کردیا گیا۔

حمیدہ بلوچ نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کا 'کسی سیاسی جماعت یا بلوچستان کی کسی انتہاپسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا'۔

انھوں نے کہا کہ ان کے خاندان کا تعلق بلوچستان سے ہے لیکن پچھلے پانچ برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے عہدیدار اسد اقبال بٹ نے ڈان کو بتایا کہ انھیں کراچی یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کی طرف سے شکایت آئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایچ آر سی پی نے معاملے کو اقوام متحدہ کے جبری گمشدگیوں کے معاملات دیکھنے والے ادارے کے علاوہ، پاکستان کے کمیشن، سندھ پولیس کے سربراہ، ڈی جی رینجرز سندھ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ اٹھایا ہے۔

اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی کو بعض اوقات حکام کی جانب سے 'روایتی جواب ملتا ہے کہ لاپتہ شخص ان کے پاس نہیں ہے' لیکن کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کے معاملے پر تاحال حکام کی جانب سے ایسا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں