اسلام آباد: نیشنل ہیلتھ سروسز ( این ایچ ایس) کی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کوئی مختصر راستہ (شارٹ کٹس) نہیں ہے اور خواتین کے حقوق میں ٹھوس تبدیلی کے لیے تعلیم اور آگہی پر زور دینے کی ضروت ہے۔

یہ بات انہوں نے اسلام آباد کلب میں خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) کے زیر اہتمام ’پاکستان میں تولیدی صحت اور حقوق کے لیے نظام صحت میں نظم و ضبط‘ کو مضبوط بنانے کے عنوان سے ایک مداخلتی کیس کی رپورٹ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

سائرہ افضل تارڑ نے ضلعی سطح پر خواتین کی تولیدی صحت اور حقوق ( آر ایچ آر) کے لیے ثقافتی نقطہ نظر کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے تمام اقدامات اور منصوبوں کا اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر معاشرہ اپنی ثقافت اور روایات میں تبدیلی کو مسترد کردے تو کوئی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر صحت کے شعبے کو انسانی وسائل کے فقدان کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مزید پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟

اس موقع پر این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے تقریب میں خواتین کی صحت کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے کہا کہ صحت کا بجٹ دوگنا ہوگیا تھا اور عطیات دینے والوں سے صحت کے شعبے خاص طور پر خواتین کی تولیدی صحت کے لیے امداد میں اضافہ بھی کردیا تھا، مگر بد قسمتی سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

انہوں نے خواتین کے آر ایچ آر کے قومی فریم ورک کو وضع کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا۔

خیال رہے کہ خواتین کے حقوق کی تنظیم شرکت گاہ نے یہ مطالعہ پیش کیا تھا، جو ملک کے چار صوبوں کے 6 اضلاع کے چار سالہ (2014 سے 2017) کے نتائج پر مبنی ہے۔

شرکت گاہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریدہ شہید نے کہا کہ خواتین کی تولیدی صحت اور حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ سماج کی ذہنیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیاں اپنی تولیدی صحت کے مسائل پر بحث نہیں کرنا چاہتی، اگرچہ ان کے علاقے میں تولیدی صحت کی سہولت دستیاب بھی ہو تو خاص طور پر لڑکیوں کے لیے وہاں جانا باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لڑکی اس سہولت کے حصول کے لیے پہنچ جاتی ہے تو وہ معالج سے براہ راست اپنے مسئلے پر بات نہیں کرپاتی اور ہمیشہ گھر کا کوئی فرد اس کی جانب سے نمائندگی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا کی خواتین بنیادی حقوق کیلئے کوشاں

انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر شہری عوامی صحت کے مراکز پر جانا زیادہ اطمینان بخش سمجھتے ہیں لیکن ان مراکز سے عوام کے ساتھ بدسلوکی اور مرد اسٹاف کی جانب سے ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوئی تھی۔

رپورٹ میں تولیدی صحت کے مسائل کے بارے میں آگہی اور صحت کی دیکھ بھال کے حوالے حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان مضبوط حکمت عملی تیار کرنے کی سفارش کی گئی جبکہ یہ تجویز دی گئی کہ طبی ساز و سامان کی مرمت، شکایات درج کرانے کا بہتر نظام، اسٹاف کے لیے تکنیکی تربیت اور جنسی ہراساں کرنے سے متعلق ضابطہ اخلاق ضلعی صحت کے مراکز پر آویزاں کیے جائیں۔


یہ خبر 14 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں