اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری کا کہنا ہے کہ توانائی کے قابلِ تجدید منصوبوں میں معاہدوں کی کمی کی ذمہ دار حکومت نہیں ہوگی کیونکہ ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہیں ملک کے کئی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اضافی لوڈ شیڈنگ صرف پروپیگنڈا ہے۔

اویس احمد خان لغاری نے کہا ’میں نے کچھ دن پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ ملک سے بجلی کا خاتمہ ہو چکا ہے، آج 10 گنا تیز آواز میں یہی بات کہتا ہوں جبکہ کل 20 گنا تیز آواز میں کہوں گا کہ ملک میں مزید لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی۔‘

انہوں نے بتایا کہ آئندہ چند روز میں حکومت کی جانب سے ایک کمپیوٹر ایپلیکیشن متعارف کرائی جائے گی جس سے ہر شخص کو کسی بھی وقت کسی بھی فیڈر سے آنے والی سپلائی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں اضافی توانائی موجود ہے: وزیر اعظم

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت ایسے علاقوں میں مکمل بجلی بحال نہیں کرے گی جہاں پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کا خسارہ زیادہ ہے کیونکہ اس سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور لوگوں پر اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ گردشی قرضہ ایک کھرب 35 ارب روپے سے بڑھ کر 2 کھرب 80 ارب روپے تک ہو جائے گا۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ 5 ہزار 8 سو فیڈرز ایسے ہیں جن میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہے جبکہ 8 ہزار 6 سو فیڈرز میں سے صرف 10 فیصد میں بجلی چوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔

وزیر توانائی نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت طلب سے زائد بجلی کی پیداوار کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور عوام سے کیے وعدے کے مطابق بجلی کے نرخ میں کمی کر کے ان کو سہولت مہیا کرنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے کمپنیوں کی پالیسی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: قومی گرڈ کو رواں ماہ دوسری مرتبہ بحران کا سامنا

اویس احمد خان لغاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی بھی تمام قابلِ تجدید توانائی کی پیدوار کے ذرائع کی پالیسی میں تبدیلی کی منظوری دے چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئی پالیسی کے تحت موجودہ نرخ اور نجی سرمایہ کاروں کو لا گت کے علاوہ منافع کی شرح کی بنیاد پر پیشکش کو مسابقتی بولی کی بنیاد پر نرخ سے تبدیل کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مخصوص سال میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے حصے کا اعلان کرے گی جس کے لیے بولی لگائی جائے گی جبکہ حکومت کامیاب بولی لگانے والوں سے کم سے کم قیمت پر بجلی خریدے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی آبادی کے تناسب سے قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کے لیے بااختیار بنایا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ بجلی مخصوص علاقوں تک محدود نہ ہو۔

مزید پڑھیں: ٹیکنوکریٹ سورما10سال میں بھی کوئی منصوبہ مکمل نہ کرسکے، وزیراعظم

انہوں نے بتایا کہ اگر چھوٹے ہائیڈرو پاور منصوبے معاہدوں پر دستخط نہیں کرتے تو لیٹرز آف انٹرسٹ (ایل او آئی) اور لیٹرز آف سپورٹ (ایل او ایس) کی بنیاد پر حکومت پر کوئی قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

تاہم نئی پالیسی کی بنیاد پر وفاقی وزیر کی جانب سے امید ظاہر کی گئی کہ مسابقتی بولی کے ذریعے بجلی کے نرخ میں کمی آئے گی اور بجلی کے حوالے سے مسابقتی منڈی سامنے آئے گی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت آئندہ چند ہفتوں میں سندھ کے علاقے جھم پیر میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ’وِنڈ پروجیکٹس‘ کے 4 سو میگا واٹ اور پنجاب میں قائدِ اعظم سولر پارک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے ’سولر یونٹ‘ کے 6 سو میگا واٹ بجلی کے لیے ایک شفاف مسابقتی بولی کا اعلان کرے گی تاکہ کسی بھی مخصوص گروپ کی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ میں 17 روپے فی یونٹ سے کم ہو کر 6 روپے 74 پیسے ہوگئے جبکہ بگاس سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ 10 روپے 73 پیسے سے کم ہو کر 7 روپے 97 پیسے ہوگئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پر صوبوں کو قانون کے تحت اعلیٰ ہائیڈل منافع پر مجبور نہیں کیا جاتا تو اس وقت ملک میں بجلی کے نرخ 2 روپے 25 پیسے سے بھی کم ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں اوسط نرخ 11 روپے 40 پیسے ہے جبکہ اس میں سرچارج اور ٹیکس شامل نہیں ہیں تاہم انہیں 9 روپے 20 پیسے فی یونٹ پر آنا چاہیے۔


یہ خبر 14 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں