اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کیس میں وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایک ہفتے میں حکم پر عملدرآمد نہیں ہوا تو آئندہ سماعت پر وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کو عدالت میں طلب کرنے کے سمن جاری کردیئے جائیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز نے واضح کیا کہ ‘اگر اعلیٰ حکام کی جانب سے ایسا ہی رویہ برتا گیا تو وزیراعظم، وزیر مذہبی امور، وزیر داخلہ، وزیر قانون اور وزیر اطلاعات توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے’۔

فاضل جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘ذمہ داران کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 248 میں توہین عدالت کے مرتکب مجرم کے لیے کوئی گنجائش (تحفظ) نہیں ہے’۔

یہ پڑھیں: گستاخانہ مواد: بلاک شدہ پیجز کے ریکارڈ کیلئے فیس بک سے رابطہ

انہوں نے واضح کیا کہ ‘توہین عدالت کے جرم میں سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی پاکستان (پی پی پی) کے رہنما یوسف رضا گیلانی کو واپس گھر جانا پڑا تھا (وزارتِ عظمٰی کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا)’۔

واضح رہے کہ فاضل عدالت نے حکومت کو 31 مارچ 2017 کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف قانون سازی سے متعلق اقدامات اٹھانے اور اس ضمن میں حکومت کو مفضل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اسپیشل سیکریٹری داخلہ فرقان بہادر نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر وزارتِ مذہبی امور ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ قانون اور وزارتِ اطلاعات کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد: 7 رکنی جے آئی ٹی تشکیل

جسٹس شوکت عزیز نے اسپیشل سیکریٹری کے بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘آٹھ ہفتوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن اس ضمن میں کوئی مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ‘میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ گستاخانہ مواد سے متعلق مسئلے پر اداروں کے ایگزیکٹیوز سیاسی رویہ کیوں اختیار کر رہے ہیں، جبکہ اس معاملے کا براہِ راست تعلق ملک میں امن و امان سے ہے۔‘

فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت ایک نااہل شخص کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون سازی ایک دن میں ہوجاتی ہے لیکن توہین آمیز مواد کی سوشل میڈیا پر تشہیر پر حکومت کیوں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر پابندی سے گستاخانہ مواد ہٹ جائے گا؟

فاضل عدالت نے اسپیشل سیکریٹری داخلہ کو 22 دسمبر 2017 کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ‘سیکریٹری داخلہ، گستاخانہ مواد اور غیر اخلاقی مواد کی تشہیر میں مصروف این جی اوز کی نشاندہی کریں جنہیں پاکستان کے اندر اور باہر سے فنڈنگ حاصل ہو رہی ہے۔

عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو حکم دیا کہ ‘انٹرنیٹ پر موجود ان ویب سائٹ کی مکمل فہرست تیار کی جائے جس میں گستاخانہ مواد موجود ہے تاکہ ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں جائیں’۔


یہ خبر 16 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں