اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ریاستی امور ایماندار اور صادق لوگوں کی جانب سے نہیں چلائے جارہے، جس کی وجہ سے عوام پریشانی کا شکار ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ریاست کے انفرااسٹرکچر کو ایمانداری کے مقصد سے بنایا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کے 80 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس ثاقب ثنار کا کہنا تھا کہ لوگوں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ اقتدار میں رہنے والے اور خاص طور پر عوام کے نمائندے منتخب ہونے والے لوگ ایماندار ہونے چاہیے یا نہیں کیونکہ ایمانداری کسی بھی شخصیت کی فضیلت میں سے ایک ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جہانگیر ترین کو کاغذات نامزدگی میں برطانیہ میں ان کے 12 ایکڑ مکان کے بارے تفصیلات جمع نہ کرانے پر نااہل قرار دیا تھا جبکہ تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی پر تمام الزامات مسترد کردیے تھے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کی پالیسیوں کو دیکھنے کے لیے سپریم کورٹ سب سے بڑی باڈی ہے، اس کے علاوہ ریاست کی ایگزیکٹو باڈی بھی اس سے ماخوذ ہوسکتی ہے، اگرچہ پارلیمان کے قانون سازی کے عمل اور انتظامیہ کے ایگزیٹو اقدامات کی توثیق کا اعلیٰ عدالتوں سے عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے تاہم اس اقدار کو آئین کی حدود میں رہ کر قانون کے مختلف اصولوں اورعدالتوں کی تشریح کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: خلافِ توقع فیصلے کے بعد عدلیہ پر الزامات کی بوچھاڑ نہ کی جائے: چیف جسٹس

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی حکم نامے کو ایسے لوگوں کے ہاتھ کا آلہ نہیں بننے دیں گے جو عدالتوں میں بدنیتی کے ساتھ آتے ہیں یا تو ان کا اپنا ذاتی مقصد ہوتا ہے یا اسی طرح کا مقصد ہوتا ہے جو کسی اور کے لیے پراکسی ہوتا ہے۔

فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو سر پر تلوار رکھ کر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہ لوگ آئین کے آرٹیکل 2 اے کے تحت عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے، اس کے علاوہ ارکان پارلیمان کو بدنام کرنے، دھمکی دینے اور غیر معمولی ہراساں کرنے کی دوبارہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔

فیصلے کے مطابق اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ خود کو بچانے کے لیے آئین اور قانون کے تحت فرائض انجام دینے والوں پر دباؤ کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔

اپنے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ارکان پارلیمنٹ عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب ہوتے ہیں اور وہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمان میں آتے ہیں۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ جمہوریت آئین اور عدالتوں کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے اور آئین کے سرپرست اور محافظ ہونے کے تحت اس کی حفاظت کی ذمہ داری کے پابند ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب آئین کے تحت کسی امیدوار کے اہل یا نا اہل کے لیے اس کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جائے تو اس وقت کسی کو اس معاملے میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: عمران خان اہل اور جہانگیر ترین نااہل قرار

اس کے علاوہ ارکان پارلیمان کے انتخابات کو تب ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ الیکشن ٹریبونل کے سامنے 1976 کے نمائندہ ایکٹ کے ذریعہ فراہم کردہ طریقہ کار کے مطابق اہل یا نااہل قرار دیا گیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ذہن اس بارے میں واضح ہیں کہ عدالت کی جانب سے ارکان پارلیمان کے خلاف اس طرح کے حکم نامے غیر معمولی مقدمات میں ہی جاری کیے جاتے ہیں۔


یہ خبر 17 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں