پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی حفاظت سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاہور کے بس اسٹیشنز اور بسیں خواتین کے لیے بہتر نہیں ہیں، جہاں انہیں ہراساں کرنے کے واقعات رونما ہونا ایک معمول ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ عوامی بسوں میں خواتین کو گھورنا، ان کا پیچھا کرنا، نازیبا اشارے کرنا، سیٹیاں بجانا، آوازیں کسنا اور ہاتھ لگانے کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کو عورت پبلکیشن اینڈ انفارمیشن سروس فاؤنڈیشن کی جانب سے مقامی ہوٹل میں تقریب کے دوران جاری کیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'خواتین کو ہراساں کرنے کا بل تعلیمی اداروں پر قابل اطلاق نہیں'

اس تقریب میں پاکستان میں تعینات آسٹریلوی سفارتکار مارگریٹ ایڈمسن کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔

اس تحقیق کو عورت فاؤنڈیشن کے ساتھ پنجاب کے محکمہ برائے خواتین کی ترقی، پنجاب کے کمیشن آن اسٹیٹس آف وومن، چیف منسٹر اسٹریٹجک ریفارمز یونٹ اور پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی شراکت سے تیار کیا گیا۔

مہمان خصوصی مارگریٹ ایڈیمسن کا کہنا تھا کہ خواتین کے سفر کرنے اور عوامی مقامات پر تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی خواتین کے نمائندے جمشید قاضی کا کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر خواتین کی کم تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شہر میں جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی خواتین کو ہراساں کرنے والا ایف آئی اے افسر گرفتار

انہوں نے کہا کہ 'وومن آن وہیلز' پنجاب حکومت کا ایک بہترین اقدام ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سول سوسائٹی کے رضاکاروں نے 'گرلز ایٹ ڈھابہ' کے نام سے مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی عوامی مقامات میں نقل و حمل بہت بڑا چیلنج ہے۔

وومن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی سیکریٹری بشریٰ امان کا کہنا تھا کہ مستقبل کا خواب یہی ہے کہ جہاں مرد اور عورت کو یکساں تصور کیا جائے اور برابری کی بنیاد پر حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بس اسٹیشنز پر علیحدہ انتظار کرنے کی جگہیں بنانے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ رپورٹ میں لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی خواتین و لڑکیوں کی حفاظت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔

لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) اور میٹرو بس کے تحت چلنے والی بسوں پر نظر ڈالتے ہوئے رپورٹ میں 903 خواتین اور 100 بس ڈرائیورز کے نظریے پر تحقیق، معلوماتی انٹریو وغیرہ موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: خواتین کو ہراساں کرنا، ماہرہ نے بتائے 3 اہم سچ

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نامناسب انفراسٹرکچراور سیکیورٹی کے انتظامات، انتظامیہ اور پالیسی بنانے والوں کی جانب سے غیر جانبدارانہ رویہ، خواتین اور لڑکیوں کے لیے سماجی برتاؤ اور عوامی سطح پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی آگاہی کم ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں ہونے والے ہراساں کے واقعات توجہ حاصل نہیں کرپاتے اور مزید بڑھ رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کی جانب سے استعمال کیے جانے والے سفری کارڈ کی تعداد محدود ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بس اسٹاپ پر حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ 82 فیصد خواتین کے مطابق بس اسٹاپ پر انہیں ہراساں کیا جا چکا ہے۔


یہ خبر 20 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

زاہد بٹ Dec 20, 2017 04:48pm
نامناسب انفراسٹرکچر کو صرف خواتین کے ساتھ ہی کیوں دیکھ رہے ہیں، یہ مردوں کو کوں سا بہترین انفراسٹرکچر فراہم کر رہے ہیں؟ انفراسٹرکچر بہتر ہو گا تو سب فاہدہ اٹھائیں گے۔
habib ur rahman Dec 21, 2017 01:19am
good report