پشاور میں افغان قونصل جنرل معین مرستیال نے واضح کیا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے پہلے قبائلیوں کی رضا مندی لینا ضروری ہے۔

صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ‘افغان حکومت کو فاٹا اصلاحات بل پر کوئی تحفظات نہیں لیکن اس کے حق میں فیصلے سے پہلے قبائلی علماء اور شہریوں کی رائے جاننا قابل قدر ہوگا’۔

واضح ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے فاٹا بل سے متعلق قبائلیوں کی رائے کو فیصلے میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) نے بھی فاٹا کو ضم کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

یہ پڑھیں: ’بھارت، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث‘

پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے گزشتہ جمعہ قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ ‘فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ انتہائی احساس نوعیت کا ہے اور افغانستان فاٹا کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی پر سوالات اٹھا سکتا ہے’۔

افغان قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ ایران کی چاہ بہار پورٹ سے افغانستان اور پاکستان کی تجارت پر فرق نہیں پڑے گا اور پورٹ سے ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے مابین تجارت کی سہولت میں آسانی پیدا ہوگی جبکہ کراچی کی بندرگاہ افغانستان اور پاکستان کی تجارتی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔

معین مرستیال نے بتایا کہ ‘چاہ بہار پورٹ سے افغانستان اور پاکستان کے دوطرفہ تجارتی تعلقات پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے’۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضرورت‘

خیال رہے کہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کا پہلے مرحلے کا افتتاح گزشتہ مہینے کے اوائل میں ہوا۔

اس بندر گاہ کے حوالے سے خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایرانی بندرگاہ لینڈ لاک افغانستان کے لیے متبادل تجارتی راستے کے طور پر کام کرے گی۔

واضح رہے کہ معین مرستیال کابل یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے اور حال ہی میں انہیں پشاور میں افغان سفارت کار کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

افغان قونصل جنرل نے کہا کہ‘دونوں ممالک کے مابین سیاسی اختلاف تجارت، ثقافت اور معیشت کے فروغ سے ختم کیا جا سکتا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، بھارت اور افغانستان کے حوالے سے امریکا کی نئی حکمت عملی

ان کا کہنا تھا کہ قونصلیٹ کا دائرکار بہت محدود ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ثقافت کی سطح پر تعلقات بہتر ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ‘میری کوشش ہوگی کہ پشاور قونصلیٹ کسی سیاسی اختلاف کا مرکز نہ بنے’۔

معین مرستیال نے بتایا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے افغان طالبعلموں کے لیے مخصوص نشستیں 9 سے بڑھا کر 15 کردی ہیں اور خیبرپختونخوا حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے اسکول اور کالجز میں داخل کے عمل کو آسان بنا دیا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں رائج ‘لاقانونیت’ کی وجہ دونوں ممالک بحران کا شکار ہیں جس کے سدباب کے لیے مشترکہ لا ئحہ عمل تیار کیا جائے جو دونوں ریاستوں کے لیے پائیدار امن کا ضامن ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ بشمول امریکا ، چین ، بھارت، انڈیا اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اس لیے پاکستان اور افغانستان کو بھی باہمی مفاد کی حفاطت کرنی چاہیے۔

افغان قونصل جنرل معین مرستیال نے صاف لفظوں میں کہا کہ افغانستان کسی ملک یا گروپ کو اپنی زمین دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔


یہ خبر 21 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں