اسلام آباد: صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی کے) حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حقوق اور اختیارات کو مبینہ طور پر پامال کرنے پر مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) جیسے آئینی فورم کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں وفاقی حکومت کی جانب سے معیشت، تیل، گیس اور بجلی کے معاملات پر لیے گئے حالیہ فیصلوں پر احتجاج کیا اور کہا کہ اس حوالے سے صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے اپنے خط میں لکھا ’میں خود اپنے تحفظات کے اظہار میں پریشان ہوں کہ وفاقی سطح پر آج کل توانائی کے معاملے پر کس طریقے سے نمٹا جارہا ہے، وزیر اعظم کو یاد دلاتا ہوں کہ پاکستان کوآپریٹو فیڈرل ازم کے اصولوں کی بنیاد پر فیڈریشن موجود ہے، جہاں اہم معاملات پر صوبوں کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ صوبوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے آئینی ادارے موجود ہیں۔‘

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: ضلعی حکومتیں بلدیاتی نظام میں آمدن بنانے میں ناکام

خط میں لکھا گیا کہ اگر یہ کافی نہیں تو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ تمام اہم فورمز پر صوبائی نمائندگی کا مطالبہ کریں گے، خاص طور پر توانائی سے متعلق فورم، جن میں پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی)، سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی گارنٹی ( سی پی پی اے جی)، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)، الٹرنیٹو اینرجی ڈویلمپنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی)، گیس کمپنیز اور دیگر ریگولیٹری ادارے شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل آئینی فورمز میں سے ایک ہے، جہاں فورتھ شیڈول کے پارٹ 2 میں موجود تمام مضامین سمیت بجلی اور گیس کے معاملات پر بحث ہوتی ہے اور فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن توانائی سے متعلق اہم پالیسی معاملات پر صوبوں کو شامل کیے بغیر اقتصادی تعاون کمیٹی اور کابینہ کمیٹی کی جانب سے معاملات کو براہ راست لینا آئین کے آرٹیکل 154 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اس معاملے پر دیگر صوبوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملے کو آئندہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے، اس دوران انہوں نے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ مینڈیٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تمام تحفظات آئین کے آرٹیکل 5 کی روح سے دیکھے جائیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی بجلی کی خریداری کے معاہدے کے اعلان سے نہ صرف اعتماد ٹوٹا بلکہ اس سے ہائیڈل پاور منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی بڑی تعداد مایوس ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کے ایک ہزار اسکول بند کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کے شہریوں کے درمیان اعتماد کو یقیناً نقصان پہنچے گا جبکہ اس اقدام سے شہریوں پر بوجھ بھی بڑھے گا۔

خط میں وزیر اعلیٰ نے لکھا کہ توانائی اور طاقت کے معاملات پر ایک سمجھدار سیاست دان کے طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نیٹ ہائیڈل منافع کے حساس معاملات سے متعلق آگاہ ہونا چاہیے اور یہ پتہ ہونا چاہیے کہ تاریخی طور پر اے جی این قاضی کمیٹی اور دیگر آئینی فورم کیا طریقہ کار اپناتے ہیں۔

پرویز خٹک نے کہا کہ 25 اگست 2017 کو اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے صوبوں کو ادائیگی کے لیے فارمولہ منظور کیا گیا تھا جبکہ نیٹ ہائیڈرل منافع کا اندازاہ لگانے کے لیے اے جی این قاضی کے طریقہ کار کو اپنانے کے لیے سمری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بعد ازاں اس معاملے کو بین الصوبائی رابطے کی وزارت کو جائزہ کے لیے بھیجا گیا تھا اور انہوں نے 19 ستمبر 2017 کو اپنے اجلاس میں اس معاملے پر غور کیا اور خیبرپختونخوا اور پنجاب سے تجویز کی گئی درخواستیں حتمی ایوارڈ کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کو پیش کردیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے نے اس معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل کی کئی مرتبہ توجہ دلائی اور وفاق سے کہا کہ مزید بد اعتمادی کو روکنے لیے وفاق بلند حوصلے سے کام کرے۔


یہ خبر 25 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں