لاہور: پنجاب حکومت کی جانب سے حال ہی میں بیان سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا کہ اگر طاہر القادری کا حقیقی مقصد ماڈل ٹاؤن سانحے کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنا ہے تو حکومت ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ بیان پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی جانب سے منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس کے دو روز بعد سامنے آیا۔

صوبائی انتظامیہ کی جانب سے سرگودھا کے پیر حمید الدین سیالوی سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں۔

خیال رہے کہ پیر حمید الدین سیالوی نے اقلیت کے حوالے سے متنازع بیان دینے پر رانا ثناء اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 31 دسمبر 2017 تک وزارت سے استعفیٰ دے دیں، تاہم ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد پیر سیالوی کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ چند روز میں لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف، رانا ثنااللہ کو استعفے کیلئے مزید 7 روز کی مہلت

وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی اور مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچے ’بیرونی ہاتھ ‘ ملوث ہے اور وہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں انصاف نہیں چاہتے بلکہ موجودہ سیٹ اپ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے مزید کہا ’ماڈل ٹاؤن واقعے پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی بیٹھک مصنوعی ہے جس کی وجہ سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے، کیا یہ لوگ 5 ماہ انتظار نہیں کرسکتے اور اپنی الیکشن میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کو نہیں دیکھ سکتے؟‘

سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا ’ ڈاکٹر طاہر القادری کے مظاہرے کے پیچھے جمہوریت کے خلاف سازش کی بُو آرہی ہے۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جو جماعتیں ماڈل ٹاؤن سانحے پر ایک ساتھ بیٹھے ہیں انہوں نے 269 افراد (سانحہ بلدیہ فیکٹری)، 188 افراد (سانحہ کار ساز) اور 50 افراد (واقعہ 12 مئی) کے قتل پر ایک ساتھ آواز بلند کیوں نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ:حکومت کو قصور وارنہیں ٹھہرایاگیا،رانا ثناء اللہ

مشاہد اللہ خان نے کہا ’بنیادی طور پر یہ مصنوعی اتحاد کا ہدف مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس کا مقصد آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونے سے روکنا ہے، لیکن ان لوگوں کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ماضی کی طرح دوبارہ ناکام ہی ہوں گے۔‘

حکومت پنجاب کے ترجمان ملک محمد احمد نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت ڈاکٹر طاہر القادری سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہم میں مدد کے لیے تیار ہے، لیکن اگر کثیر الجماعتی کانفرنس کا مقصد انصاف کا حصول نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر استعفے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے تو یہ واضح ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔

انہوں نے کہا کہ جو کثیر الجماعتی کانفرنس میں شریک جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست کی خواہاں ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہونے کا انتظار کریں، اگر طاہر القادری نے دھرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو حکومت عدالت میں جائے گی کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں انصاف صرف عدالتیں ہی فراہم کر سکتیں ہیں۔

مزید پڑھیں: 'سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحریک کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں'

خیال رہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کال پر منہاج القرآن کے مرکزی دفتر پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کے اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سپر کورٹ کے جج کی زیر نگرانی ماڈل ٹاؤن واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے۔

ملک محمد احمد نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو انصاف کے حصول کے لیے عدالت میں شواہد جمع کرانے ہوں گے اور اگر انہیں لگتا ہے کہ جسٹس نجفی کی رپورٹ سے ان کو فائدہ ہو سکتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ یہ رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

پیر سیالوی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پیر سیالوی مسلم لیگ (ن) کا حصہ رہ چکے ہیں اس لیے حکومت ان کے بھی خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے تاہم نفرت انگیز تحاریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

عوامی تحریک کا فیصلہ کُن تحریک شروع کرنے کا عزم

پاکستان عوامی تحریک کے سینئر لیڈر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت ماڈل ٹاؤن ساںحے میں انصاف کے حصول کے لیے فیصلہ کن تحریک کا آغاز کرنے جارہی ہے جس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پی اے ٹی اپنے تمام وسائل کو یکجا کرنے کے لیے متحرک ہے لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرقانون پنجاب کو استعفے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد مظاہروں کا آغاز کردیا جائے گا۔

اپنا نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ پی اے ٹی جان بوجھ کر کثیرالجماعتی کانفرنس میں اپنی حکمتی عملی ظاہر نہیں کی کیونکہ پارٹی سمجھتی ہے کہ اس حکمت عملی میں تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔


یہ خبر یکم جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں