پشاور: وفاقی وزارت مملکت برائے فرنٹیئرریجن (سیفران) نے افغان مہاجرین کی واپسی میں ایک سال کی توسیع کے حوالے سے سمری وزیراعظم سیکریٹریٹ کو ارسال کردی۔

وزارت سیفران کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ‘سمری میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ افغان مہاجرین کو دسمبر 2018 تک ملک میں رہنے کی قانونی اجازت دی جائے’۔

یہ پڑھیں: چار ماہ کے دوران 3 لاکھ 70 ہزارافغان مہاجرین کی رجسٹریشن

واضح رہے کہ پاکستان میں مقیم 1 کروڑ 40 لاکھ افغان مہاجرین کے قیام کی قانونی حیثیت اتوار کو ختم ہو گئی تھی۔

سیفران کے ذمہ دارن نے بتایا کہ ‘وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے آئندہ دو ہفتوں کے اندر کابینہ کی سفارش پر افغان پناہ گزینوں کو توسیع دینے کا قوی امکان ہے’۔

خیال رہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام میں 5 مرتبہ توسیع دی جا چکی ہے۔

حکومت نے افغان مہاجرین کی ملک میں قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ جاری کیے تھے تاکہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں ہراساں نہ کیا جا سکے، پی اور آر کارڈ کا اجرا اقوام متحدہ کے مہاجرین ایجنسی کے تعاون سے کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 میں افغان مہاجرین کی واپسی میں کمی کا امکان

حکام کے مطابق یو این ایجنسی نے رضاکارانہ طور پر افغانستان جانے والے مہاجرین کو 200 ڈالر فی کس زرِتعاون دیا جبکہ 2016 میں یہ رقم 400 ڈالر فی کس تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 2017 میں رضا کارانہ واپسی پروگرام میں صرف 48 ہزار افغان مہاجرین شامل تھے جبکہ 2016 میں اپنے ملک جانے والے والوں کی تعداد 4 لاکھ پر مشتمل تھی۔

افغانستان میں موسم سرما کی وجہ سے اکتوبر 2017 کو رضا کارانہ واپسی پروگرام کو معطل کردیا تھا اور کہا جارہا ہے کہ مارچ 2018 میں دوبارہ پروگرام کا آغاز ہوگا لیکن سال کے آخرتک بھی مہاجرین کی مکمل واپسی ممکن نہیں ہو سکے گی۔

مزید پڑھیں: میانمار:مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب، اقوام متحدہ

ذرائع کے مطابق ‘افغانستان میں نازک سیکیورٹی صورتحال اور معاشی بحران کی وجہ سے حکومت رواں برس کے بعد بھی افغان مہاجرین کی ملک میں قیام کے لیے مزید دو بار توسیع دے سکتی ہے’۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن مہم میں گزشتہ چھ ماہ میں 6 لاکھ 70 ہزار کو رجسٹر کیا۔

ذرائع کے مطابق ملک بھر میں نادرا کے 21 ذیلی دفاتر میں افغان رجسٹریشن سینٹر قائم ہیں۔


یہ خبر یکم جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں