پشاور: وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فاٹا میں دہشت گردی کےخلاف فوجی آپریشن کےدوران تباہ حال سماجی اداروں کی تعمیر اور بحالی کا منصوبہ فنڈز کی کمی کے سبب تعطل کا شکار ہے جس سے مقامی قبائلیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل فاٹا میں جنگ سے متاثرہ خاندان کی دوبارہ آبادکاری اور انفراسٹرکچر سمیت تباہ شدہ تعلیمی و طبی مراکز کی بحالی کے لیے مالی سال 17-2016 میں 45 ارب روپے مختص کیے تھے تاہم وفاق کی جانب سے فاٹا سیکریٹریٹ کو صرف 3ارب روپے دیئے گئے۔

یہ پڑھیں: عالمی بینک کی فاٹا میں بحالی کیلئے 11کروڑ ڈالرکی منظوری

وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے شمالی اور جنوبی وزیرستان، اورکزئی ، خیبر اور کرم ایجنسی میں تعمیر اور آبادکاری کے لیے گزشتہ دو مالی سالوں میں 80 ارب مختص کیے تھے۔

وفافی فنانس ڈیژن نے فاٹا سیکریٹریٹ کو مہاجرین کی بحالی اور انفراسٹکچر کے لیے 35 ارب روپے 2015 میں دیئے جبکہ رواں مالی سال میں 45 ارب روپے جاری ہوں گے۔

متاثرین کی دوبارہ آبادی کاری کے سفری اخراجات کی مد میں 12 ارب، گھروں کی تعمیرات کے لیے 30 ارب، تباہ ہونے والے گھروں کے معاوضے کے لیے 33 ارب اور فوری بحالی کے لیے 5 ارب روپے مخصوص کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’متحدہ مجلس عمل کی بحالی فاٹا انضمام کی حمایت سے مشروط‘

ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ فنانس ڈویژن نے پچھلے 6 ماہ کے دوران 45 ارب میں سے صرف 3 ارب جاری کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوجی عملداری کی وجہ سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پیش رفت قدرے سست روی کا شکار لیکن تسلی بخش ہے دوسری جانب اورکزئی اور کرم ایجنسی میں بدترین صورتحال ہے’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) اورکزئی میں اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں لیکن آر آر یو تعمیراتی و بحالی کے کام کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ فنانس ڈویژن کی جانب سے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘اورکزئی میں بینادی سہولیت نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ مکین دیگر حصوں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں’۔

انہوں نے واضح کیا کہ خیبرایجنسی ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پا ک فوج تعمیر و بحالی کا کام کررہی ہے جبکہ فاٹا سیکریٹریٹ، اورکزئی اور کرم ایجنسی میں آئی ڈی پیز کی بحالی کے معاملات دیکھ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود

حکومت نے متاثرہ قبائلی ایجنسیوں میں مکمل تباہ حال گھروں کےلیے 4 لاکھ اور جزوی نقصان کا شکار گھروں کے لیے 1 لاکھ 60 ہزار مختص کیے تھے۔

حکام کے مطابق 95 فیصد آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں جبکہ دیگر آئندہ جون تک پہنچ جائیں گے۔

سی ایل سی پی کے تحت تاحال 34 ہزار مالکان نے معاوضے کی رقم حاصل کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘70 ہزار میں سے 50 ہزار 798 متاثرہ گھروں کی تصدیق ہو چکی ہے اور16 ہزار گھروں کے معاوضے کے لیے کاغذی کارروائی بھی مکمل ہے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث ادائیگی نہیں کی جارہی۔

پشاور میں قائم کرائے پر آر آر یو آفس میں 45 افراد کا اسٹاف کام کرتا تھا لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے فنڈز کی معطلی کے بعد اب دفتر میں صرف صرف 6 افراد کا عملہ ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ مذکورہ 6 افراد کا عملہ گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہ سےمحروم ہے۔

عملے نے بتایا کہ اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام نے آر آر یو کو دو برس مکمل مدد فراہم کی تاہم اقوام تحدہ ایجنسی کے تعاون سے فاٹا میں دوبارہ بحالی کا کام بہتر انداز میں شروع ہو سکتا ہے کیوں کہ غیر ملکی ڈونرز یو این ڈی پی کے تعاون سے فنڈز کا اجزا کرتے ہیں۔


یہ خبر 4 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں