کراچی یونیورسٹی کے ایک اور طالبعلم اور ان کے بھائی کو سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے۔

دو ماہ سے بھی کم عرصے قبل کراچی یونیورسٹی سے ایک طالبعلم کو اغوا بھی کیا گیا تھا۔

اغوا کیے گئے طالب علم کے قریبی دوست نے ڈان کو بتایا کہ ’ممتاز ساجدی بلوچ اور ان کے بھائی کامران ساجدی کو سادہ لباس میں ملبوس قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار جمعرات کی رات تقریباً 4 بجے اپنے ہمراہ لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں کو یونیورسٹی روڈ سے باہر میٹرو کیش اینڈ کیری کے قریب واقع مَدو گوٹھ سے اٹھایا گیا جبکہ اہلکاروں کے ہمراہ پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ممتاز یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں آخری سال کا طالب علم ہے، کامران نے حال ہی میں بارہویں جماعت کی تعلیم مکمل کی ہے جبکہ دونوں کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔‘

طالب علم کے دوست نے کہا کہ ’ممتاز کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے، تاہم وہ سول سوسائٹی کے احتجاج میں حصہ لیتا ہے جبکہ اس کا خاندان ممتاز کی رہائی کی درخواست کر رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ طالب علم کا مقدمہ درج

انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے نائب چیئرمین سندھ اسد اقبال بٹ نے ممتاز کے دوست کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس اور سادہ لباس سیکیورٹی اہلکار بغیر نمبر پلیٹوں والی گاڑی میں آئے اور ممتاز اور ان کے بھائی کو اپنے ہمراہ لے گئے۔‘

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر طالب علم نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عوام کے سامنے لانا چاہیے، جبکہ صغیر احمد بلوچ کی ’گمشدگی‘ کے خلاف احتجاج کرنا شہریوں کا جمہوری حق ہے۔

واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی کے پالیٹیکل سائنس کے شعبے میں دوسرے سال کے طالب علم صغیر احمد بلوچ 20 نومبر کو ویژوئل اسٹدیز کے ڈیپارٹمنٹ کے قریب چائے پی رہے تھے، جب گاڑی اور موٹر سائیکلوں میں آنے والے چند افراد انہیں اپنے ہمراہ لے گئے۔

ایچ آر سی پی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’اگر بلوچ طلبا کو اسی طرح اٹھایا جاتا رہا تو حالات بدنظمی کی طرف چلے جائیں گے۔‘ دونوں بھائیوں کے مبینہ اغوا کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں