اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ’پی سی او‘ کے تحت حلف اٹھانے کے والے ججز کی 2009 کے عہدے سے ہٹانے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 ججز پر مشتمل لارجر بینچ نے پی سی او ججز کی نظرثانی اپیلوں اور آئینی درخواست کی سماعت کی۔

پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز شبر رضا اور حسنات احمد خان نے عدالت میں چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ججوں کو نکالنے والے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

حسنات احمد خان نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں پرویز مشرف کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا گیا اور وجہ یہ بیان کی گئی کہ ان کو نوٹس جاری کیا گیا اور نہ ہی سنا گیا، تو ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے کیوں ایسا نہیں کیا گیا، ہمیں نوٹس جاری کیا گیا اور نہ سنا گیا جبکہ اب ہمیں پنشن بھی نہیں دی جا رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے مقدمے کا پس منظر بتا دیں۔

پی سی او ججز اور ان کے وکیل علی سبطین فضلی نے بتایا کہ 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف نے افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹایا، 3 نومبر 2007 کو ڈکٹیٹر نے ایمرجنسی نافذ کردی اور اسی دوران افتخار چوہدری کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف حکم جاری کیا۔

حکم میں کہا گیا کہ جج حلف نہ اٹھائیں، بعد ازاں بحالی کے بعد افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے 31 جولائی 2009 کو ایک فیصلہ دیا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو فارغ کر دیا اور ان کے خلاف توہین عدالت کیس کا بھی کہا۔

11 ستمبر 2011 کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سوال اٹھایا کہ کیا ججوں پر توہین عدالت لگ سکتی ہے؟ مگر اسی بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا کہ قانون میں فرد کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی افراد ہیں اس لیے توہین عدالت لگ سکتی ہے اور یہ افراد تو ہٹائے جانے کے بعد جج رہے ہی نہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے تو اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج زاہد حسین کے خلاف بھی اسی فیصلے میں لکھ دیا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم وہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا؟

پی سی او ججز کے وکیل نے کہا کہ وہ آپ کی مہربانی ہے مگر یہاں ہم آئینی درخواست دائر کرکے آئے ہیں کہ ہمارے خلاف جاری کیا گیا فیصلہ خلاف قانون تھا اور قانون کی نظر میں ایسا فیصلہ دیا ہی نہیں جا سکتا، جبکہ ہم نے اپیل کی تھی مگر رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگائے اور پھر اسے سنا نہیں گیا۔

پی سی او ججز نے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے عدالت کی تکریم پر حرف آئے ۔

عدالت نے شبر رضا اور حسنات احمد کی آئینی درخواست خارج کردی جبکہ پنشن و مراعات کے لیے ہائیکورٹس کے دس سابق ججوں کی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی وجہ سے نمٹا دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں