لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

سالِ نو کے موقع پر پاکستان کو ’جھوٹا اور دھوکے باز‘ قرار دینے والی امریکی صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے فوراً بعد امریکا کی ہندوستانی نژاد سفیر برائے اقوامِ متحدہ کی جانب سے غیر ملکی فوجی امداد کی مد میں 25 کروڑ ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد مزید تادیبی کارروائیاں بھی اگلے چند دنوں میں شاید سامنے آئیں۔ یہ پاک امریکا تعلقات کی تازہ ترین پیش رفت ہے۔

لیکن یہ سب کرنے سے پہلے اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے؛ اِس کی افواج دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ہیں؛ یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہے۔ خطے میں اِس کی اپنی ترجیحات اور اپنے مفادات ہیں۔ اِسے کوئی بنانا ریپبلک کی طرح ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔

پاکستان کو واضح انداز میں اپنے مفادات و مقاصد کا تعین کرکے اپنی پالیسیز کا نفاذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے مبہم اور طویل بیان میں امریکا کی جانب سے پاکستان کی ہتک یا پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائی کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پاکستانی عوام کے غم و غصے کا اظہار صرف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے بیان کے ذریعے ممکن ہوا۔

پاکستان کو صاف انداز میں امریکا کو بتا دینا چاہیے کہ:

اول، ہم افغانستان اور اتحادی افواج سے پاکستان پر سرحد پار سے حملے روکنے کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ حملے اُن 'محفوظ ٹھکانوں' سے ہو رہے ہیں جو ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور دولتِ اسلامیہ کے دہشتگردوں کو افغانستان کی 40 فیصد، غیر محکوم زمین پر حاصل ہیں۔

دوم، پاکستان افغانستان میں موجود افغان طالبان کے جنگجوؤں، کمانڈروں اور رہنماؤں کے کابل کی قومی اتحادی حکومت کے ساتھ سیاسی مذاکرات میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ امکان ہے کہ وہ سیاسی پیشکشوں کا جواب دیں گے، طاقت کے استعمال سے کام نہیں بنے گا۔

سوم، پاکستان اپنی سرزمین پر موجود افغان طالبان رہنماؤں کو تب تک گرفتار یا قتل نہیں کرے گا، جب تک وہ پاکستان پر یا پاکستان کی سرزمین سے دوسرے ممالک کے خلاف حملوں یا دہشتگردی میں ملوث ہوں۔ اُنہیں نکالنے کے لیے ہمیں تمام افغان مہاجرین کو نکالنا پڑے گا۔

چہارم، پاکستان کشمیریوں کی تمام جائز اُمنگوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود تمام عسکریت پسند گروہوں، بشمول کشمیری عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن لے گا مگر صرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تناظر میں، نہ اِس سے کم، نہ اِس سے زیادہ۔

پنجم، پاکستان اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو محدود کرنے کے لیے امریکا یا کسی اور سے بات صرف تب کرے گا جب ہندوستان بھی اپنے پروگرام محدود کرے۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کی ٹوئیٹ سے ڈرنا نہیں ہے، لیکن

پاکستان کو یہ پالیسی فیصلہ لینا چاہیے کہ وہ امریکی مالی امداد یا کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر معاوضہ قبول نہیں کرے گا۔ جب تک اسلام آباد واشنگٹن سے رقم لیتا رہے گا، تب تک اُسے 'کرائے کا قاتل' تصور کیا جاتا رہے گا۔ اگر ہمیں امریکا سے رقم حاصل کرنی ہی ہے تو اسے افغانستان میں اس کی فورسز تک پہنچنے والے سامان کی بلند ٹرانزٹ فیس کے طور پر ہونا چاہیے۔

مگر پاکستان کو افغانستان میں امریکا-نیٹو کی براستہ زمین و فضائی سپلائی کے معاہدے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ ایسی فورسز کو رسد کی فراہمی کا کیا جواز ہے جو ایک دن شاید پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائیں؟

حقیقت میں تو پاکستان اور دیگر علاقائی ریاستوں (چین، روس، ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک) کے پاس اب معقول وجوہات ہیں کہ وہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی جلد از جلد واپسی کے طریقوں پر غور کریں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں افواج کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ لیا ہے۔ وہ خطے میں اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے غیر معینہ مدت تک وہاں رکنا چاہتا ہے۔ یہ ایک لامحدود جنگ کا نسخہ ہے۔ طالبان ایسا کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کریں گے جس میں غیر ملکی افواج کی واپسی کی شق نہ ہو اور طالبان کو فوجی طریقے سے ہرانا ممکن نہیں۔

دوسری بات، امریکا نے واضح طور پر ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار، دولتِ اسلامیہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو ختم کرنے کے لیے 'کافی اقدامات' نہیں کیے ہیں جو افغانستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں سے پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی قابلِ فہم ہے کہ امریکا نے پاکستان کے خلاف ہندوستانی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کی حمایت کی ہے تاکہ شاید سی پیک کو نقصان پہنچایا جاسکے۔

تیسری بات، اطلاعات ہیں کہ امریکا نے کسی بحران کی صورت میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر 'قبضہ کرنے اور تباہ کرنے' کے منصوبے بنا رکھے ہیں۔

چوتھی بات، ایران اور روس کو اِس بات پر کُھلا شک ہے کہ امریکا کے دولتِ اسلامیہ/داعش کے ساتھ تعلقات ہیں۔ یہ حیران کن بات ہے کہ افغانستان میں امریکی نظرداری کے باوجود دولتِ اسلامیہ پھل پھول رہی ہے۔ یہ افغانستان سے دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔ اِس مہلک دہشتگردی کو ختم کرنے کے لیے افغان طالبان کے تعاون سمیت ایک اجتماعی کاوش کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا امریکا کے ساتھ اتحاد نہیں، وزیر خارجہ کا دعویٰ

سیاسی حل کو فروغ دینے میں امریکا کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے علاقائی ریاستوں کو یہ ذمہ داری خود لینی چاہیے۔ انہیں تمام رضامند افغان جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ رابطے اور تعاون کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ افغان تنازعے کا ایک ممکنہ سیاسی حل نکالا جاسکے۔ اِس طرح کے امن مرحلے کے لیے امریکا کی شمولیت یا عدم شمولیت دونوں ہی صورتوں میں کئی طریقے موجود ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان کو افغانستان میں اپنے تعلقات کی نوعیت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ اسے افغانستان کی تمام اہم جماعتوں، بشمول کابل اور افغان طالبان کے ساتھ رابطے رکھنے چاہیئں۔ اسے دیگر جنگجو سرداروں کے ساتھ نئے تعلقات بنانے چاہیئں۔ اسے افغان مہاجرین سے متعلق ایک کثیر الجہتی پالیسی بنانی چاہیے، جس میں دوستانہ رویہ رکھنے والوں اور پاکستان سے مدد کے خواستگار لوگوں کی مدد کی جائے اور پاکستان کو گالی دینے والوں یا ہندوستان کا ساتھ دینے والوں کو باہر نکال دیا جائے۔

پاکستان کو دھمکانے کی امریکی کوششوں پر ایک منہ توڑ جواب لبرل اشرافیہ سے لے کر مذہبی انتہاپسندوں تک پاکستانی عوام کی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کرے گا۔ پاکستان کو مالی طور پر مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور سفارتی محاذ پر شدید دباؤ بھی جھیلنا پڑسکتا ہے۔ مگر ہم ماضی میں تمام امریکی پابندیوں کے ادوار کے بعد بھی زیادہ مضبوط بن کر اُبھرے ہیں۔

اسٹریٹجک نقطہءِ نظر سے دیکھیں تو پاک امریکا اتحاد اب مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ امریکا ہمارے دشمن ہندوستان کا ساتھ دے رہا ہے، جبکہ ہمارے اسٹریٹجک پارٹنر چین اور اُس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور اقتصادی راہداری کا مخالف ہے۔ یہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو کچلنے کی ہندوستانی مہم کا حامی بھی ہے۔ اِس نے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے فلسطینی ریاست کے قیام کے دروازے بھی بند کردیے ہیں۔ یہ ایران میں عدم استحکام کو ہوا دے رہا ہے۔ یہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں دھکیل کر اُسے ایران کے ساتھ تصادم کی راہ پر ڈال رہا ہے۔ اِن تمام وجوہات کی بناء پر ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ ہم ٹرمپ کے امریکا سے خلع لینے کے طریقوں پر غور کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (8) بند ہیں

zahra Jan 09, 2018 10:34am
yes that's right pakistan has to be get divorce from america because trump is the person who not only the real adventure and danger for Pakistan but also he is the person who himself drowned america too because he has no sense actually to run the government
Shahid Jan 09, 2018 11:12am
Very good analysis and advise.
Naeem Jan 09, 2018 01:22pm
Excellent Sir. That's what Pakistan need to do now. I hope our leadership will take firm step against USA. Nation is always stands against USA. We really don't need USA.
iftikhar Jan 09, 2018 06:29pm
@zahra agree
iftikhar Jan 09, 2018 06:29pm
i agree
iftikhar Jan 09, 2018 06:33pm
@Naeem nation will surely support
Tariq Khwaja Jan 09, 2018 09:06pm
The words of writer, amicable separation has been wrongly translated as 'khula'. I n my humble opinion, it should be 'bahami razamandi'.
Majid Jan 10, 2018 04:57pm
We are expecting some major changes in our foreign policy who are not even interested in ministry for foreign affairs..