واشنگٹن: امریکی کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے بعد پاکستانی حکام نے گزشتہ 14 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والے 74 ہزار شہریوں اور 1 کھرب 23 ارب ڈالر کے معاشی نقصان پر مشتمل ایک فیکٹ شیٹ جاری کردی۔

پاکستان اور امریکا کے مابین تناؤ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکا نے 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی پر آپریشن کیا تاہم مذکورہ فیکٹ شیٹ امریکا کی سیاسی نقطہ نظر میں معمولی اثر مرتب کرسکتی ہے۔

یہ پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

رپورٹ میں اس امر پر بھی توجہ دی گئی کہ کس طرح پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے دشمن عناصر افغانستان کے بارڈر کی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ دفاعی اور سیکیورٹی اداروں نے عمومی طور پر پورے ملک اور خصوصاً وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں امن کی بحالی کے لیے گراں قدر خدمات پیش کیں۔

فیکٹ شیٹ میں تفصیل سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے 20 نکات کے تحت قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی وضاحت کی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان نے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں دھکیل دیا۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستان، امریکا کی مدد کرنے کا پابند ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

اسی ضمن میں بین الااقوامی ادارے انٹرنیشنل فیزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلر وار کی پیش کردہ ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2003 سے 2015 کے دوران پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنے 48 ہزار 5 سو 4 شہریوں کی قربانی دی۔

فیکٹ شیٹ میں عالمی دہشت گردی انڈیکس (جی ٹی آئی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاک آرمی کے قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں 2014 کے بعد سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

نومبر 2017 میں شائع ہونے والی نیٹا سی کرافورڈ کی تصنیف ‘اپ ڈیٹ آن دی ہیومن کاسٹس آف وار فار افغانستان اینڈ پاکستان، 2001 سے وسط 2016‘ میں اسلام آباد کے دعویٰ کی تصدیق کی گئی کہ پاکستان میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ اور طالبان 2001 میں افغانستان سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے شمالی خطے میں داخل ہوئے۔

مزید پڑھیں: کابل سپلائی کی وجہ سے امریکا کا پاکستان کی عسکری قیادت سے رابطہ

مصنفہ کا کہنا تھا کہ جنگ میں پاکستان کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا تاہم امریکی ڈرون طیاروں کے حملے سے تقریباً 2 ہزار 657 معصوم شہری نشانہ بنے۔

انہوں نے پاکستان کے موقف کی تائید کی کہ افغانستان میں عسکری آپریشن کے ثمرات پاکستان پر پڑتے ہیں۔

فیکٹ شیٹ میں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف عسکری آپریشن کے نتیجے میں ایک لاکھ شہری بے گھر ہوئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے تاہم 15 برسوں میں 22 ہزار ایک سو شہری اور 8 ہزار 214 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 40 ہزار 792 شہری جزوی زخمی یا مکمل معذوری کا شکار ہوئے۔

فیکٹ شیٹ میں امریکا کو آگاہ کیا گیا کہ صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران 58 صحافیوں کے ساتھ ساتھ 92 سماجی رضا کار بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے جبکہ 31 ہزار طالبان اور دیگر عسکریت پسند کو بھی ہلاک کیا گیا۔

جیمز میٹس نے حالیہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے نیٹو فورسز کے مقابلے میں زیادہ جانوں کی قربانی دی، جبکہ سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے بھی کم و بیش انہی الفاظ میں پاکستان کی قربانی کو سراہا تھا۔

دوسری جانب جنوبی ایشیا کے امور کے معروف امریکی اسکالر ماروین ویمبون نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے موقف اور امریکی حکام، میڈیا اور سماجی اداروں کے نقطہ نظر میں کوئی ‘ربط نہیں’ ہے ۔

ماروین ویمبون نے فیکٹ شیٹ کی افتتاحی تقریب جہاں 90 فیصد پاکستانی نژاد امریکی تھے، سے کہا کہ ‘پیغامات کا تبادلہ دو طرفہ نہیں ہو پاتا’۔

انہوں نے کہا کہ سفارتکار پاکستان کا نقطہ نظر امریکی کانگریس، میڈیا، این جی اوز، انتظامیہ کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن وہ اتنا پُر اثر ثابت نہیں ہوتا کہ متعلقہ ادارے اور شخصیات پاکستان کی کہانی سنیں۔

انہوں نے عالمی سطح پر پاکستانی موقف کی حمایت میں کمی کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے متعلق خبریں اس زویہ سے پیش کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کے لیے امریکی حلقوں میں منفی تصور پڑتا ہے۔


یہ خبر 9 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں