چین نے تمام افواہوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کوئی فوجی اڈا قائم نہیں کر رہا اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے عالمی برادری کو زیادہ اندازے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ خیال کیا جارہا تھا کہ چین، پاکستان کے علاقے جیوانی میں اپنا فوجی اڈا قائم کر رہا ہے جو بھارت، ایران اور افغانستان کے اشتراک سے تعمیر کی جانے والی چابہار بندرگاہ سے نہایت قریب ہے۔

بھارتی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں تھیں کہ پاکستان چین کو فوجی بیس قائم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے کیونکہ جیوانی، بیجنگ کے اشتراک سے تعمیر کی جانے والی گوادر پورٹ کے بھی انتہائی نزدیک ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور چین میں سے 'حقیقی برتری' آخر کسے حاصل ہے؟

تاہم چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کینگ نے گزشتہ روز اپنی روزانہ کی پریس بریفنگ کے دوران ایسی تمام افواہوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس جون میں پینٹاگون کی جانب سے ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں اشارہ دیا گیا تھا کہ پاکستان مکمنہ طور پر چین کو فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

یہ پیشن گوئی کانگریس کو پیش کردہ 97 صفحات پر مشتمل سالانہ رپورٹ میں سامنے آئی جس میں کہا گیا ’چین ممکنہ طور پر بیرونِ ملک اپنے فوجی اڈے ایسے ممالک میں قائم کرنے جارہا ہے جن کے ساتھ بیجنگ کے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں اور یکساں اسٹریٹجک مفادات بھی ہیں؛ ان میں پاکستان شامل ہے۔‘

بعدِ ازاں چین کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں پینٹاگون کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ بیجنگ ایشیا پیسفک خطے اور دنیا کے امن و استحکام کی حفاظت کرنے والی ایک قوت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا سرد جنگ کی فرسودہ ذہنیت سے چھکاڑا پائے’

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کا اہم ترین حصہ ہے، اسی لیے پاکستان اور چین مل کر سی پیک کی تعمیر میں کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ منصوبہ ایک راستے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مفاد میں بھی ہے، لہٰذا میرا نہیں خیال کہ عالمی برادری کو اس معاملے میں اتنے زیادہ اندازے لگانے کی ضرورت ہے۔‘

امریکی رپورٹ پر ردِ عمل دیتے ہوئے چینی وزارت خاجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے کہا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی حکام معروضی اور منطقی انداز میں چینی فوج کی ترقی کو اپنی سرد جنگ کی فرسودہ ذہنیت کو دور رکھتے ہوئے دیکھیں گے اور دونوں ممالک کے فوجی تعاون کو مزید مستحکم کرنے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں