ریاض: سعودی سرمایہ کار ’بن لادن گروپ‘ کے چیئرمین اور اس خاندان کے دیگر افراد کے زیرِ حراست ہونے کے بعد سعودی حکام کی جانب سے اس گروپ کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کا امکان ہے جبکہ ساتھ ہی اس بڑے تعمیراتی گروپ کے کچھ اثاثوں کی بھی ریاست کو منتقلی پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ بن لادن گروپ جو اپنے عروج کے دور میں 1 لاکھ سے زائد ملازم رکھتا تھا، ریاست کا سب سے بڑا تعمیراتی گروپ ہے اور ریاض کے بڑے ریئل اسٹیٹ، صنعتی اور سیاحتی منصوبوں کے ذریعے معیشت کو بہتر کرنے میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔

تاہم یہ گروپ گزشہ کچھ سالوں سے معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ تعمیراتی صنعت کا بحران اور 2015 میں مکہ مکرمہ میں کرین گرنے سے 107 افراد کی اموات کے بعد نئے ریاستی معاہدوں کی عارضی طور پر معطلی ہے۔

بینکنگ اور صنعتی ذرائع نے سیاسی اور تجارتی معاملات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاض کی جانب سے اس گروپ کو کنٹرول کرنے کا ارادہ ہے تاکہ یہ گروپ سعودی عرب میں ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رکھ سکے۔

مزید پڑھیں: بن لادن: ملازمین کی تنخواہ کی مد میں 10 کروڑ ریال جاری

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ برس اکتوبر میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن میں سینئر حکام اور تاجروں کو حراست میں لیا گیا تھا، جس میں بن لادن گروپ کے چیئرمین بقر بن لادن اور خاندان کے کئی اور افراد بھی شامل تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سعودی حکام حراست میں لیے گئے افراد سے معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے کہ وہ 100 ارب ڈالر کے فنڈز واپس کرنے کا ارادہ کریں جن کا تعلق ریاست سے تھا جبکہ بن لادن گروپ کے مستقبل پر بات چیت بھی اس کوشش کا حصہ ہے۔

ذرائع کے مطابق بن لادن خاندان کے افراد کی گرفتاری کے بعد، وزارتِ خزانہ کی جانب سے 5 رکنی کمیٹی بنائی گئی، جس میں تین حکومتی ارکان بھی شامل تھے، تاکہ وہ بن لادن گروپ کے کاروبار کو دیکھ سکیں اور سپلائرز اور ٹھیکیداروں کے ساتھ تعلقات کو سنبھال سکیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ کمیٹی میں حکومتی ارکان بھی ہیں، جن میں پراپرٹی کمپنی دار الارکان کے سابق چیف ایگزیکٹو عبدالرحمٰن الحرکان اور پیٹرو کیمیکل پروڈیسر کے بورڈ ممبر خالد ناہاس شامل ہیں، اس کے علاوہ خاندان کے دو رکن بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں، جس میں یحییٰ بن لان اور عبداللہ بن لادن ہیں۔

اس سے قبل گروپ کا مکمل کنٹرول خاندان کے پاس تھا اور بقر بن لادن زیادہ فیصلے لیا کرتے تھے۔

اس بارے میں بن لادن ایگزیکٹو سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ وزارت خزانہ کے حکام اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے دفتر سے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

ایک مثال قائم؟

اگرچہ بن لادن گروپ کی موجودہ ملکیت خاندان کے پاس ہے، تاہم گروپ حکومت کے ساتھ کچھ اثاثوں کی منتقلی یا حکومتی قرضوں کو ممکنہ طور پر کم کرنے یا ختم کرنے پر بات چیت کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مکہ میں دنیا کے سب سے بڑے ہوٹل کی تعمیر دوبارہ شروع

ایک بینکنگ ذرائع کا گروپ کی تفصیلی معلومات کے ساتھ کہنا تھا کہ یہ قرضہ تقریباً 30 ارب ڈالر تک ہوسکتا ہے، جو 18 مہینے پہلے تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث آمدنی کم ہونے پر حاصل کیا تھا۔

تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کی جانب سے بن لادن گروپ کا کنٹرول سنبھالنا کرپشن کے خلاف مہم میں حراست میں لیے گئے دیگر تاجروں کے مقدمات کے لیے مثال قائم کرے گا۔

دوسری جانب بن لان کی تعمیراتی صنعت میں اسٹریٹجک اہمیت اور ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ مالی جدوجہد کے باعث اس کے ساتھ دیگر افراد کی بانسبت مختلف برتاؤ کیا جاسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں