چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ججوں کو حاصل سہولیات کے فقدان کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت مقننہ نہیں ہے، قانون سازی اور اس میں اصلاحات کا اختیار پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔

کراچی میں آل پاکستان چیف جسٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں شکایت ہے، عوام کو ملک میں سستا انصاف ملنا چاہیے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جو قانون پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی یہاں موجود تھا کیا اس میں کبھی پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی تجدید کروائی گئی ہے؟

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے ہسپتالوں کی صورتحال پر معائنہ ٹیم تشکیل دے دی

انہوں نے پاکستان میں انصاف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرایہ دار کو پتا ہے کہ اگر مالک مکان کیس کرتا ہے تو اسے کم از کم 5 سال کے لیے ایک تحٖفظ مل جائے گا اور مجھے اس جگہ سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔

میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کسی شخص کا سب سے بڑا غم اس کے عزیز کے جانے کا ہے اور ان کی زندگی رک جاتی ہے تاہم بعد میں وہ آہستہ آہستہ زندگی میں بحال ہوجاتے ہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ جو آج عدالت میں جاتے ہیں اور ان کے کیس کی تاریخ بڑھ جانے تو وہ مایوس ہوکر کس کرب سے گزرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے میں معیاری فرانزک لیب ہی موجود نہیں ہیں جہاں سے کیسز کی بہتر رپورٹس بنائی جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا ملتان میں پرانی عدالتیں بحال کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی آدمی دوسرے سے کہے کہ آپ نے میرا حق مارا ہے اس کے لیے میں عدالت جاؤں تو اس کا فریق فوری مسئلہ حل کر دیتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی صورتحال میں مدعی شخص خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ’چلو! تمہیں عدالت میں بھی دیکھ لیں گے۔‘

میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہی صورتحال جرائم کے مقدمات میں بھی ہے جہاں ایک کیس میں کئی برس گرز جانے کے بعد عدالت کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ ملزم بے قصور ہے۔

چیف جسٹس نے کہا میں جج صاحبان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں اور قعطاً اپنی پسند یا ناپسند پر فیصلہ نہ کریں، اپنی اپنی جوڈیشل اکیڈمیز کو بھی اپ ڈیٹ کریں۔

'فیصلوں میں تاخیر کے ذمہ دار صرف ہم نہیں'

چیف جسٹس کا بعد ازاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ پارلیمنٹ ہی قانون بنا سکتی ہے اور اصلاحات لاسکتی ہے ہم صرف اس کی تشریح کرسکتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے ججوں کو فیصلوں میں تاخیر نہ کرنے کی تاکید کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں تاخیر کے ذمہ دار صرف ہم نہیں ہیں، آپ قوانین میں ترمیم کردیں، جج کوتاہی کرے تومیں ذمہ دارہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، قانون بنانا اس کی ذمہ داری ہے، سہولتوں کی کمی کی وجہ سے جج پوراان پٹ نہیں دے پاتے۔

انھوں نے کہا کہ ججوں کی دیانت داری پر کسی کوشک نہیں ہوناچاہیے، انصاف بک نہیں سکتا، ہر ایک کو انصاف کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور ہمیں اپنی خودمختاری پرسمجھوتہ نہیں کرناچاہیے۔

مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل جوفیصلے آرہے ہیں اس میں قانونی پہلو کم نظرآرہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس جج کے پاس مقدمات 3 ماہ سے زیادہ عرصے تک زیرالتواہیں وہ ایک ماہ میں نمٹا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت عدالتی نظام تنقید کی زد میں ہے جبکہ آئین کےآرٹیکل 212 میں تبدیلی کی ضرورت ہے، انصاف کی فراہمی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قانون کےمطابق ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اہم مسئلہ ہے جبکہ تمام شہری قانون کی پاسداری کے پابند ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت انصاف ہر شہری کابنیادی حق ہے، انصاف وقت پراورقانون کےمطابق کرنا ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ لوگوں کی شکایت ہے کہ ان کو انصاف وقت پرمیسرنہیں۔

چیف جسٹس کا بغیر پروٹوکول مزارِ قائد کا دورہ

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے پروٹوکول کے بغیر صوبائی دارالحکومت میں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار قائد پر حاضری دے کر عدالتی اصلاحات کا باضابطہ آغاز کر دیا۔

سپریم کورٹ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 13 جنوری کو بغیر کسی پروٹوکول کے مزارِ قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔

سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق اس موقع پر چیف جسٹس نے پاکستان کی سلامتی و استحکام اور خوشحالی کے لیے بھی دعائیں کیں۔

قبلِ ازیں چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت کی جبکہ انہوں نے عدالتی اصلاحات شروع کرنے کے حوالے سے آل پاکستان چیف جسٹس کانفرنس کی صدارت بھی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں