کراچی پولیس نے ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے ڈپٹی کنوینئر حسن ظفر عارف کی لاش ایک گاڑی سے برآمد کی ہے۔

پولیس نے گاڑی سے برآمد ہونے والی لاش کے بارے میں تصدیق کی ہے کہ وہ ایم کیو ایم لندن کے رہنما پروفیسر حسن ظفر عارف کی ہے۔

یہ پڑھیں: ایم کیو ایم لندن کے رہنما حسن ظفر ضمانت پر رہا

سیکیورٹی اہلکاروں کے مطابق مقتول کی شناخت ان کی جیب سے ملنے والے کارڈ سے ہوئی ہے جس پر ان کے گھر کا پتہ ڈیفنس فیز 6 کا درج ہے بعدازاں پولیس نے ہلاکت کے محرکات جاننے کے لیے لاش کو جناح ہسپتال منتقل کردیا۔

بعد ازاں جناح ہسپتال میں شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق لاش پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات موجود نہیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کے قانونی مشیر عبدالمجید نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز یعنی ہفتے (13 جنوری) کی شام کو حسن ظفر ان کے ہمراہ تھے تاہم ان کی صاحبزادی کو لندن روانہ ہونا تھا اس لیے وہ میرے پاس سے جلدی چلے گئے۔

عبدالمجید کا مزید کہنا ہے کہ حسن ظفر کی اہلیہ نے انہیں آج (اتوار) کی صبح فون پر اطلاع دی کہ حسن ظفر گھر نہیں پہنچے ہیں۔

ادھر سیمی جمالی نے خدشہ ظاہر کیا کہ موت طبعی ہو سکتی کیوں کہ جسم پر زخم کا کوئی نشان نہیں تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مقتول کو قتل کیا گیا یا ان کی طبعی موت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: 39 مقدمات میں ضمانت: میئرکراچی وسیم اختر جیل سے رہا

سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ حسن ظفر عارف کو جب ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہ مردہ حالت میں تھے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے پروفیسر حسن عارف کی ہلاکت پر پسماندگان سے اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ حسن عارف کا قتل کراچی کو بدامنی کی جانب دھکیلنے کی سازش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ ملتان ایئرپورٹ پہنچے تو حسن عارف کی ہلاکت کی خبر ملی۔

خیال رہے کہ حسن ظفر عارف سیاسی منظر نامے پر اس وقت ابھر کر سامنے آئے تھے جب 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی اور امریکا میں کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے جبکہ پاک فوج سے لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

جس پر 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ہی بانی اور قائد الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کیا تھا۔

بعدازاں ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، خواجہ اطہار الحسن، فیصل سبزواری اور کشور زُہرا کی پارٹی کی بنیادی رکنیت خارج کردی تھی۔

مزید پڑھیں: مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے، ایم کیو ایم لندن

ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس میں حسن ظفر عارف کا مرکزی کردار تھا۔

22 اکتوبر 2016 کو ایم کیو ایم لندن کی جانب سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) پر پریس کانفرنس سے قبل ہی حسن ظفر عارف کو اس وقت رینجرز نے گرفتار کیا جب وہ کراچی پریس کلب کے باہر ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے تھے۔

اسی دن لندن رابطہ کمیٹی رہنما کنور خالد یونس اور کمیٹی رکن امجد اللہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں کو این پی او کے تحت حراست میں لے کر 90 روز کے لیے کراچی کے سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

تاہم انہیں کراچی کے میئر وسیم اختر کو سینٹرل جیل سے رہائی کے بعد یادگار شہدا جانے سے قبل ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں درج ایف آئی آر کے تحت دوبارہ حراست میں لے کر عزیزآباد تھانے منتقل کردیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت 18 اپریل 2017 کو حسن ظفر کو ایک لاکھ روپے ضمانت کے عوض رہائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں