پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے پاکستان نے سعودی وژن 2030 کے حوالے سے ایک جامع پیکج تیار کرلیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیکج کاروباری ویزے کے طریقہ کار کو آسان کرنے، غیر تعارفی رکاوٹوں کو دور کرنے اور ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) پر بات چیت شروع کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

اس پیکج پر اعلیٰ سطح کے فورم، سعودی عرب اور پاکستان مشترکہ وزارتی کمیشن (جے ایم سی) کی جانب سے منگل (16 جنوری) کو تبادلہ خیال کیا جائے گا، یہ اجلاس اپریل 2014 کے آخری اجلاس کے ساڑھے تین سال بعد منعقد کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے دوران دوطرفہ تجارت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے اور یہ 14-2013 کی 5 ارب 8 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں17-2016 میں آدھی ہو کر 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ہوگئی تھی، جس کی ایک وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا کم ہونا بھی تھا جو مجموعی درآمدات کا 50 فیصد ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے، ورلڈ بینک رپورٹ

اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خزانہ اور اقتصادی امور رانا محمد افضل خان نے بتایا کہ سعودی وژن اپنی سماجی اقتصادی ترقی کو منتقل کرنے پر غور کرتا ہے جبکہ پاکستان انتہائی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور تکنیکی افرادی قوت کو سعودی عرب بھیج کر افرادی قوت بڑھانا چاہتا ہے، خاص طور پر ان افراد کو جو آٹو موبائل اور دیگر خصوصی شعبوں میں کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے حلال فوڈ سیکٹر، مویشی، کاشتکاری، دودھ، ماہی گیری اور دیگر زرعی صنعت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے کئی مواقع ہیں، اس کے علاوہ سعودی عرب سے پاکستان میں ریفائنری قائم کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

پیکج کے طور پر پاکستان سعودی عرب کو رسمی طور پر ترجیحی تجارتی معاہدے پر مذاکرات شروع کرنے کی پیش کش کرے گا۔

مجوزہ پی ٹی اے نہ صرف ٹیرف کا احاطہ کرے گا بلکہ نان ٹیرف رکاوٹوں کو بھی دور کرے گا اور پاکستان کی برآمدات کو سعودی عرب تک پہنچانے کا موقع فراہم کرے گا۔

فی الحال پاکستان کی سعودی عرب برآمدات میں ایک بڑی چیز چاول ہے تاہم گزشتہ کچھ برسوں میں اس کی برآمدات بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب، ایران کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا، جس کے ساتھ پاکستان دو طرفہ ترجیحی معاہدہ کرے گا۔

اس پیکج کا ایک اور خاص مقصد کاروباری ویزوں کا حصول آسان کرنا ہے کیونکہ اس وقت مختلف ڈپارٹمنٹ سے منظوری اور ویزا کے حصول میں کم از کم 6 ہفتے لگ جاتے ہیں۔

اسی طرح سعودی عرب کی جانب سے تجارتی ویزوں کی فیس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور وہاں کوئی بھی تجارتی سرگرمی میں شامل ہونے کے لیے ویزے کی فیس 74 ہزار روپے فی فرد ادا کرنی پڑتی ہے، جس کے باعث سعودی عرب میں ہونے والی نمائشوں میں پاکستانیوں کی شرکت کم ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی ہیلتھ 2017 کی نمائش میں کسی بھی پاکستانی کمپنی نے حصہ نہیں لیا اور پاکستان چاہتا ہے کہ تجارتی ویزوں پر فیس کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔

ملاقات میں دونوں ممالک کے بڑے چیمبرز کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا، پاک-سعودی مشترکہ تجارتی کونسل سال 2000 میں بنایا گیا تھا اور اس کی باڈی کے 17 سال میں 3 ملاقاتیں ہوئی اور یہ کاروبار سے کاروبار کے اجلاس کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی معاشی تبدیلیوں سے پاکستان کیسے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

آئندہ جے ایم سی کے اجلاس میں تین اہم نکات پر تبادلہ خیال ہوگا، جس میں تجارت، سرمایہ کاری اور کسٹم پر مشترکہ ورکنگ گروپ کا قیام شامل ہے، جو سعودی عرب کے وزارت تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ میں تعاون کرے گا۔

اس کے علاوہ نان ٹیرف رکاوٹوں کو حل کرنے کے لیے دو اہم مسائل پر تبادلہ خیال ہوگا، پہلی یہ کہ سعودی پورٹس پر پاکستانی برآمدات کی ترسیل کی کلیئرنس اور کسٹم میں تاخیر سے بچنے کے لیے باہمی شناخت کا معاہدہ ہوگا۔

دوسرا مسئلہ یہ کہ سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کی جانب سے شناخت کے لیے کوالٹی اشورنس سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔

اس پیکج کے بارے میں سیکریٹری تجارت یونس دھاگا نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے مخصوص اشیاء کی برآمدات پر پابندی ہٹانے کے معاملے کو اٹھایا جائے گا۔

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تین اہم نکات پر جے ایم سی میں تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں پی ٹی اے، باہمی شناخت کے معاہدے اور کاروباری ویزوں کی سہولت پر بات چیت شامل ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار کے بزنس اور فنانس پیج پر 15 جنوری 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں