افغان صدر اشرف غنی نے خودکش حملوں کے خلاف پاکستان کے 1800 سے زائد علماء کی جانب سے جاری متفقہ فتوے پر تنقید کی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ صرف پاکستان تک کیسے محدود ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کیا اسلامی تعلیمات اور اصول تمام مسلم ممالک کے لیے ایک نہیں ہیں؟ کیا انہیں ایک ملک تک محدود کیا جاسکتا ہے؟ اسلامی تعلیمات کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ عالمگیر ہیں۔‘

اپنی حکومت کے پاکستان مخالف بیان کو دہراتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں بدامنی اسلام آباد کی طرف سے افغان طالبان اور اس کے عسکری ونگ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کی وجہ سے ہے، اس لیے اس فتوے کو سب سے پہلے پاکستان میں عملدرآمد کی ضرورت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: پیغام پاکستان فتویٰ: ’انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد گار‘

یاد رہے کہ دو روز قبل حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف علماء کا فتویٰ (پیغام پاکستان) کیا گیا تھا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے ایک ہزار 800 سے زائد علماء نے خودکش حملوں کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ’حرام‘ قرار دیا تھا۔

فتویٰ میں علماء کی جانب سے غیر ریاستی عناصر سے جہاد کے نام پر تشدد پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

یوان صدر اسلام آباد میں ’پیغام پاکستان‘ فتوے کی تقریب اجراء سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف علماء کا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، جس پر عمل درآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور دنیا کے سامنے اسلام کی تعلیمات کے علاوہ پاکستانی معاشرے کا مثبت تاثر بھی اجاگر ہوگا۔‘

مزید پڑھیں: ریاست کےخلاف مسلح جدو جہد، خودکش حملے حرام قرار

تاہم افغان صدر کا کہنا تھا کہ افغان طالبان جیسے گروپوں کی حمایت کرکے پاکستان پڑوسی اسلامی ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی کی حمایت سانپ پالنے کے مترادف ہے اور جو اپنے آنگن میں سانپ پالتے ہیں انہیں بالآخر وہ ڈس ہی لیتے ہیں۔‘


یہ مضمون گندھارا میں شائع ہوا جسے اجازت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

ایس احمد؛؛ Jan 19, 2018 02:11am
اشرف غنی کی دلیل معقول لگتی ہے۔
Nader Jan 19, 2018 01:06pm
@ایس احمد؛؛ yes