پشاور: خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام اور زندگی معمول پر آنے تک پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع کردیں۔

افغان مہاجرین کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ محمد سعید ہاشمی نے پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جانب سے واپسی کی ڈیڈلائن کے بعد سے افغان شہریوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ تب تک افغانستان واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں جب تک افغان حکومت انہیں جان و مال کے تحفظ، رہائش، روزگار، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کا یقین نہیں دلا دیتی۔

انہوں نے کہا کہ جبری اور بغیر منصوبہ بندی کے افغان پناہ گزینوں کی واپسی ان کے مصائب میں مزید اضافہ کرے گی، جو پہلے سے ہی پاکستان میں مختلف مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کے مختلف کیمپوں کے قبائلی عمائدین قاری محمد شاہ، ارسلہ خان خاروتی، حاجی احمد، محمد اعظم، ولایت خان، دلاورجان اور مطیع اللہ کے مطابق پاکستانی حکومت کو افغان پناہ گزینوں کو بے دخل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا افغان پناہ گزینوں کے قیام میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے افغان حکومت سے بھی کہا کہ امن کی بحالی تک پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی طریقہ کار کو موثر انداز میں استعمال کیا جائے۔

اس حوالے سے قاری محمد شاہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال غیر مستحکم ہے اور حکومت کے پاس افغان شہریوں کی واپسی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اگلے ایک ماہ کے اندر پاکستان میں قائم اپنا کاروبار چھوڑ کر واپس چلے جائیں۔

افغان بزرگ ارسلہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 25 لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے تھوڑا وقت دینا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب افغانستان میں سردیوں کا موسم اپنے عروج پر ہے، امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے اور افغانستان حکومت کے پاس واپس آنے والوں کے لیے کوئی پلان نہیں ہے تو پناہ گزینوں کو بے دخلی کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے پاکستانی حکومت، یو این ایچ سی آر اور افغان حکومت سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں امن کی بحالی تک پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع کے لیے اقدامات کریں۔

طورخم سرحد پر ٹرکوں کو کلیئرنس دینے سے انکار

دوسری جانب طورخم سرحد کے ذریعے افغانستان سے درآمد کیے جانے والے تازہ پھل، سبزی اور خشک میوہ جات سے بھرے ٹرکوں کو کسٹم کلیئرنس دینے سے انکار کردیا گیا اور نیشنل فوڈ اتھارٹی کے ایک اہلکار کی جانب سے ان ٹرکوں کو کوالٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی تاجر اور کلیرنگ ایجنٹس کا کہنا تھا کہ دو روز قبل طورخم کے پاس فوڈ اتھارٹی کے اہلکار آئے تھے اور انتظامیہ سے کہا تھا کہ افغانستان سے درآمد شدہ تمام کھانے کی اشیا کو اس وقت تک کلیئرنس فراہم نہیں کی جائے گی جب تک درآمد کنندگان کی جانب سے ان اشیا کی تازگی اور حفظان صحت کے مطابق ہونے کی ضروری دستاویزات فراہم نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کو افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کی سمری ارسال

انہوں نے کہا کہ حکام کی جانب سے ضروری دستاویزات کا اطلاق اچانک کیا گیا اور اس حوالے سے انہیں کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔

تاجروں کا کہنا تھا کہ فوڈ اتھارٹی کے حکام کی جانب سے معیار کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے سے ٹماٹر، بند گوبی، سیب، انار اور دیگر خشک میوہ جات سے بھرے تقریباً 48 ٹرک پاکستان کی جانب سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے کسٹم کلیئرنس ایجنسی ایسوسی ایشن کے صدر حیات اللہ شنواری نے ڈان کو بتایا کہ مالی نقصان کے باعث وہ پہلے ہی افغانستان سے کھانے کی اشیاء کی درآمدات روک چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسٹم حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر ان ٹرکوں کو پاکستان میں آنے کی اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی لیکن بعد میں فوڈ انسپکٹر کی جانب سے معیار کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے پر انہیں روک دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ صرف کراچی بندرگاہ سے جاری کیا جاتا ہے اور پورے ملک میں اس حوالے سے فوڈ اتھارٹی کا کوئی دوسرا دفتر موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کھانے کی چیزوں کو وقت پر نہیں بھیجا گیا تو یہ خراب ہوجائیں گی، ساتھ ہی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر افغانستان سے درآمدات کو روکنے کا عمل جاری رہتا ہے تو کہی پاکستان کی جانب سے برآمد ہونے والی اشیا پر بھی یہی پابندیاں نہ لگ جائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

sikandr Jan 19, 2018 12:53pm
تاریخ پڑھ کر ہی بتا رہا ہوں کہ پختون افغان قوم کو ہر دور میں دوسری قوموں نے کتے کی طرح گھر میں گھس کر مارا ہے . انکی عورتوں کا ریپ کیا ہے اور آج بھی ہر جگہ ایسا ہی ہورہا ہے. تم لوگوں کا اوقات صرف یہ ہے کہ تم پنجابی کو آج بھی صوبہ پنجاب میں اپنی عورتیں پیسوں کے عوض بیچ دیتے ہو . پنجاب بھر میں پنجابیوں نے انکی عورتوں کو رنڈی بنا کر رکھا ہوا ہے . ہیرا منڈی میں سے سارا مال کابلی جاتا ہے . قربانیوں کی بات کرتے ہو ...کونسی قربانیاں ؟ جاٹ اور اعوان نہ ہو تو پاکستان کی فوج کبھی دنیا کی نمبر ایک فوج نہیں بن سکتی چوتییے ...جاٹ سکھ تھے تو اعوان عربی ال نسل ہیں اور حضرت علی(ر ض) کی اولاد ہیں. جا کے تاریخ پڑھ اسراءیل کی نسل. کلاشنکوف بندوق تو کھسرا بھی چلا لیتا ہے نا مردوں کی قوم . اندھیرے میں چھپ کر اپنے ہم زبانوں کی گود میں بدلہ لینے والی قوم . تاریخ کا سبق سناتا ہوں . جس میں پختون افغانیوں کی بہادری کے قصے ہیں : 1813 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابدالیوں کو شکست دے کر اٹک پر قبضہ کر لیا۔ 1818 میں کشمیر کو ابدالیوں سے لیا۔ 1819 میں پشاور کے ابدالی گورنر دوست محمد خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو سالانہ خراج دے کر اس کی سلطنت کا حصہ بننے کا معاہدہ کیا مگر کچھ عرصے بعد بغاوت کر دی۔ 1823 میں نوشہرہ کی جنگ کے بعد پشاور سے آگے درہ خیبر تک کا علاقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ آئینہ دیکھ لیا یا اور دکھاوں ؟