اسلام آباد ہائی کورٹ میں چودھری شوگر مل کی ریکارڈ ٹمپرنگ کیس میں ظفر حجازی کی جانب سے مقدمہ ختم کرنے کی درخواست پر عدالت عالیہ نے ماہین فاطمہ اور علی عظیم کو مقدمے میں نامزد نہ کئے جانے کی وجوہات پر آئندہ سماعت پر ایف آئی اے سے جواب طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریکارڈ ٹمپرنگ کیس میں ملوث ظفر حجازی کی جانب سے مقدمہ ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

سابق چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی اپنے وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل چودھری حسیب عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

ظفر حجازی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 17 دسمبر 2014 کو ظفر حجازی ایس ای سی پی کے چیئرمین تعینات ہوئے تھے جبکہ ان پر جو الزام لگائے گئے وہ ان کی تقرری سے پہلے کے ہیں، انہوں ںے زور دیا کہ چوہدری شوگر ملز کی منی لانڈرنگ اور تفتیش سے متعلق دونوں معاملات ان کی تقرری سے پہلے کے ہیں۔

مزید پڑھیں: ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس: ظفر حجازی کی بریت کی درخواست خارج

وکیل ظفر حجازی نے کہا کہ جن دو لوگوں نے ظفر حجازی پر الزام لگایا اور اس کا ثبوت نہیں دے سکے بعد میں وہی دو افراد ظفر حجازی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی جانب سے مقدمے کا اندراج بد نیتی پر مبنی ہے، گواہان نے الزام لگایا ہے کہ ظفر حجازی نے بطور چیئرمین ریکارڈ ٹمپرنگ کا حکم دیا۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ پھر تو ماہین فاطمہ اور علی عظیم کو بھی ملزم ہونا چاہیے تھا۔

جسٹس محسن کیانی نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ظفر حجازی کے ساتھ باقی نامزد ملزمان کو کیوں کیس میں شامل نہیں کیا گیا، عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ایف آئی اے سے جواب لے کر جمع کرائیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کر دی۔

ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس

پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے الزام عائد کیا تھا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر الحق حجازی چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیر پھیر میں ملوث تھے۔

سپریم کورٹ نے ظفر حجازی پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ جمع کرانے کے لیے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ظفر حجازی کی ’ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس‘ کے اخراج کی درخواست

رواں برس 19 جون 2016 کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو ہدایت دی تھی کہ وہ یہ معاملہ ایف آئی اے کو بھجوائیں۔

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ کے ڈائریکٹر مقصود الحسن کی سربراہی میں ریکارڈ ٹیمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی چار رکنی ٹیم نے اپنی تحقیقات کا آغاز 23 جون کو کیا تھا جسے 30 جون تک مکمل کر لیا گیا۔

چار رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ 8 جولائی 2016 کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں یہ سامنے آیا کہ چیئرمین ایس ای سی پی چوہدری شوگر ملز کیس کے ریکارڈ میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کی 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جے آئی ٹی کے لگائے گئے الزامات کی تائید کی گئی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج

ایف آئی اے رپورٹ پر عدالت نے ظفر حجازی کے خلاف اسی روز ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔

بعد ازاں ظفر حجازی نے ضمانت کی درخواست جمع کروائی، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی 17 جولائی تک کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عبوری ضمانت کے اختتام پر 17 جولائی 2016 کو اسپیشل جج سینٹرل نے ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس میں ان کی 5 روز (یعنی 21 جولائی تک) کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی اور بعد ازاں 21 جولائی کو اسپیشل جج سینٹرل کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے بعد ظفر حجازی کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ظفر حجازی نے شوگر ملز کیس بند کرنے کا حکم دیا‘

اگلے ہی دن یعنی 22 جولائی 2016 کو ظفر حجازی کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا گیا، جس میں 26 جولائی کو مزید 3 روز کی توسیع کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں