امریکا میں پاکستان کے خلاف شروع ہونے والی حالیہ اشتہاری مہم کے بعد واشنگٹن نے اسلام آباد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ملک کی خود مختاری پر حملہ کرنے والی کسی بھی تنظیم کی حمایت نہیں کرے گا۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معاملہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اٹھایا جہاں انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی خود مختاری اور اس کے اندرونی معاملات کی ہمیشہ کی طرح حمایت جاری رکھی جائے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ الیس ویلز نے اسلام آباد کے اپنے حالیہ دورے کے دوران بھی پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکا پاکستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’جنیوا میں فری بلوچستان مہم کے پیچھے بھارت اور افغانستان‘

سفیر کا کہنا تھا کہ کچھ منفی پوسٹرز اور بل بورڈز کو نیو یارک میں دیکھا گیا ہے جن میں سے چند ٹیکسیوں پر بھی لگائے گئے تھے تاہم پاکستان کی جانب سے احتجاج کیے جانے کے بعد انہیں ہٹایا جاچکا ہے جبکہ واشنگٹن میں بھی کچھ ٹیکسیوں پر اسی طرح کے اشتہارات دیکھے گئے تھے جو کچھ ہی عرصے میں غائب ہوگئے تھے۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس معاملے کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور دیگر حکومتی اداروں میں اٹھاتے ہوئے انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے جس پر امریکا نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ اس منفی مہم کے پیچھے تنظیموں کو امریکی ایجنسیوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ عناصر امریکا کے آزادی اظہار رائے کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اسی طرح کی ایک اشتہاری مہم کو اس سے قبل لندن اور جنیوا میں بھی دیکھا گیا جسے پاکستان روکنے میں کامیاب رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان مخالف پوسٹرز:سوئٹزرلینڈ کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی تجویز

پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ اس پروپیگینڈے کے پیچھے ملوث افراد کی کوئی آواز نہیں اور انہیں پاکستان اور نہ ہی دیگر ممالک میں کوئی حمایت حاصل ہے۔

ان خفیہ کاموں کے پیچھے چھپے ہاتھوں کی نشاندہی کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ ایسے کام کرنے والے افراد امریکا میں نہیں بلکہ ان کا تعلق ہمارے مشرقی پڑوسی سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک منتخب حکومت ہے اور وہاں غیر معمولی ترقی جاری ہے جو ان پروپیگنڈوں کے کھوکھلے پن کا اظہار کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نیو یارک میں ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے دعوے کے مطابق 100 سے زائد پیلی ٹیکسیوں پر 'آزاد بلوچستان' کے نعرے دیکھے گئے تھے جس کے بعد یہ مہم رواں ہفتے امریکی دارالخلافہ پہنچی جہاں 'آزاد کراچی' کے اشتہارات واشنگٹن کی کچھ ٹیکسیوں پر دیکھے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: لندن میں ٹیکسیوں پرپاکستان مخالف نعرے:برطانوی ہائی کمشنر سےاحتجاج

بعد ازاں جمعرات (18 جنوری) کو امریکا کے مقامی اخبار روزنامہ 'دی واشنگٹن ٹائمز' کی جانب سے اس کی اشاعت کے ساتھ ایک لفافہ بھی تقسیم کیا گیا تھا جس میں ’آزاد کراچی‘ کا مطالبہ دہرایا گیا تھا۔

آزاد کراچی مہم کی تشہیر کا عکس — فوٹو، ڈان اخبار
آزاد کراچی مہم کی تشہیر کا عکس — فوٹو، ڈان اخبار

یاد رہے کہ آزاد بلوچستان کی مہم لندن اور جنیوا سے امریکا آئی تھی جسے نجی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کلیئر چینل آؤٹ ڈور کی جانب سے چلایا جارہا تھا تاہم ابھی یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ کراچی کے لیے چلنے والی مہم کے پیچھے بھی اس ہی ایجنسی کا ہاتھ ہے یا نہیں۔

فلاحی کاموں کیلئے شہرت رکھنے والے پاکستان نژاد امریکی بزنس مین محمد علی کا کہنا تھا کہ ایک بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو اس کام کے لیے خریدنے میں بہت زیادہ پیسے درکار ہوتے ہیں اور کوئی تو یہ پیسہ فراہم کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلاحی کام تو ٹھیک ہے لیکن سیاسی شکایات کو عوامی مہم کا حصہ بنانا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے اور جس کے پاس بھی فنڈ موجود ہوں وہ یہ کام کرسکتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے اور یہاں بہت سے سرمایہ کار ہیں جنہیں مختلف ریاستوں سے شکایات ہیں۔

ڈان کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر اشتہاری ایجنسی نے اس معاملے پر جواب دینے سے انکار کردیا۔

آزاد کراچی مہم کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق امریکا میں مقیم متحدہ قومی موومنٹ کے سابق کنوینیئر ندیم نصرت اس مہم کے ترجمان ہیں۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ اس مہم کا آغاز 15 جنوری کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے دن سے ہوا تاکہ اسے انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ جوڑا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: جنیوا میں ’آزاد بلوچستان‘ کے بینرز پر پاکستانی سفیر کا احتجاج

واشنگٹن ٹائمز میں شائع ہونے والے اشتہار میں سیاسی کارکنان کی گمشدگی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا جس کے علاوہ پروفیسر حسن ظفر عارف کو ایم کیو ایم کا رہنما بتاتے ہوئے ان کے لیے انصاف کی اپیل کی گئی۔

نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ندیم نصرت کا کہنا تھا کہ انہوں کراچی کو پاکستان سے الگ ریاست بنانے کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ اس مہم کا آغاز ملک میں جاری ظلم اور بربریت کے خلاف کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس مہم کا آغاز صرف مہاجروں کے لیے نہیں بلکہ بلوچ، سندھی اور دیگر مذہبی و لسانی اقلیتوں کے خلاف جاری بربریت کے خاتمے کے لیے کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر حکمران عوام میں دہشت پیدا کرنا ختم کردیں تو تمام تنظیمیں جو مہاجروں اور بلوچوں کی نمائندہ ہیں، دوبارہ متحد ہوکر سامنے آئیں گی۔


یہ خبر 20 جنوری 2018 ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں