اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے باور کرایا ہے کہ اس ابہام سے باہر آنا چاہیے کہ افغانستان میں طاقت اور جبر کی حکمت عملی سے امن قائم ہو سکے گا، کیونکہ خطے کے گزشتہ 17 سالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں افغانستان کے امور پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ کابل اور اس کے اتحادی دوسروں پر اپنا بوجھ ڈالنے کے بجائے افغانستان کے داخلی چیلنجز پر توجہ مرکوز کریں۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو تصور کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے باہر ہیں تو انہیں حقیقت کا دوبارہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے باور کرایا کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقے حکومت کے کنٹرول میں نہیں یا پھر ان میں لڑائی جاری ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان عالمی طاقتوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا خواہاں ہے، نکی ہیلی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے مملک کو بیرونِ ملک سے تخریب کاری کی ضرورت نہیں ہے جہاں منشیات کی غیر قانونی پیدوار دہشت گردوں کو لاکھوں ڈالر کا فائدہ پہنچا رہی ہو۔

اقوامِ متحدہ میں بھارتی نمائندے کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے مخصوص حلقے کی جانب سے عدم استحکام کے الزام پر ردِ عمل دیتے ہوئے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ ’جو لوگ پاکستان میں مخصوص حلقے کی بات کرتے ہیں انہیں اپنا ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے جو بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو) کی پاکستان میں گرفتاری سے ہمارے خدشات کو درست ثابت کرتے ہیں‘۔

افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے جنگ کا حل نکالنے پر زور دیتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ ’خطے میں بغیر کسی سیاسی یا سفارتی حکمت عملی سے، مسلسل فوجی طاقت کے استعمال اور تنازعات میں اضافے سے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوں گے جیسا کہ پہلے دیکھا جاچکا ہے، تاہم طاقت کے استعمال سے افغان عوام کو سیاسی حل نہیں بلکہ صرف مزید دہشت گردی اور مسائل ہی ملیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کی موجودگی اور کثیر بیرونی امداد کے باوجود افغانستان میں سیکیورٹی کے مسائل ہیں اور اقتصادی ترقی کی کمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکام کی استنبول میں طالبان سے ملاقات

انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ ’افغانستان میں استحکام مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جبکہ سیکیورٹی کونسل کے صدارتی بیان میں بھی انہی خدشات پر زور دیا گیا ہے‘۔

پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ 17 سال گزر جانے کے بعد نا ہی افغان حکومت اور اس کی عسکری اتحادی اور نا ہی طالبان طاقت کے ذریعے حل نکالنے کی پوزیشن میں ہیں۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ مذاکراتی حل کی جھوٹی تسلی دے کر طاقت اور جبر کے استعمال کے حربوں کو اب ختم ہونا چاہیے جبکہ انہوں نے طالبان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کا حصہ بنیں۔

انہوں نے افغانستان میں فوری پُر امن حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن قائم ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔

مزید پڑھیں: افغان پناہ گزینوں کا پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع کا مطالبہ

پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں جاری جنگ کے سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر پڑے اور پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنا‘۔

انہوں نے سیکیورٹی کونسل کو باور کرایا کہ دنیا کے کسی بھی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے زیادہ پناہ گزین موجود ہیں۔

ڈکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسے شکست دینے میں پاکستان کی مہم سب سے بڑی ہے جس میں ملک کے 2 لاکھ سیکیورٹی اہلکار عسکریت پسندی کے خلاف متحرک ہیں۔

انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمے کا انحصار افغانستان سے متصل طویل سرحد کا مؤثر کنٹرول پر ہے جس کے لیے پاکستان نے سرحد پر حفاظتی اقدامات کیے ہیں اور افغانستان سے بھی اسی طرح کے اقدامات کی توقع ہے۔

سیکیورٹی کونسل میں اپنے خطاب میں ملیحہ لودھی نے باور کرایا کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردوں کو دوسرے ممالک کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کے لیے فراہم نا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں